غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت

  مولانا عمار خان ناصر نے فیس بک پر ایک سوال پوچھا ہے وہ سوال اور اس کا جو جواب میں نے دیا ہے وہ  آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں:

*سوال:*
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں یہودیوں کو فرعون سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کی خوشی میں عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ ہم موسیٰ پر ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو بھی عاشورا کا روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ یہ بنیادی طور پر نہ تو ’’تشبہ بالیہود’’ کے پہلو سے تھا اور نہ کوئی ’’دن منانے’’ کے پہلو سے۔ مقصد ایک تو یہود کی تالیف قلب تھا اور دوسرے یہ جتلانا کہ مسلمان سارے انبیاء کو اپنا سمجھتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا ولادت مسیح علیہ السلام کے موقع پر بھی مسلمان شرعی حدود میں رہتے ہوئے ایسا کوئی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں جس سے اسلام کا یہ مزاج اور پیغام دنیا کے سامنے آ سکے؟

--------------------
*جواب:*
میں نے بہت غور کیا ..مجھے تو کوئی طریقہ نظر نہیں آیا ...
جو بھی طریقہ اختیار کریں گے وہ یا تو امورِ مذہبی سے ہوگا یا امورِ دنیوی سے... اگر امورِ مذہبی سے ہے تو اس کی نظیر ہمارے اسلام میں موجود ہوگی یا نہیں اگر موجود ہے تو سابقہ مذاہب کی جتنی باتوں کو اسلام میں برقرار رکھنا تھا اسے نبیﷺ کے واسطے سے باقی رکھ دیا گیا اور جن سے منع کرنا تھا ان سے منع کردیا گیا اب ہم اپنی طرف سے اسلام کے مذہبی امور میں کسی طرح کی کوئی کمی زیادتی نہیں کرسکتے ...
اور اگر اس مذہبی امر کی نظیر ہمارے دین میں موجود نہیں تو اسلام ہمیں دوسروں کے مذہبی طریقے کو اپنانے کی بالکل اجازت نہیں دیتا خاص طور سے جب کہ اس کی نظیر بھی موجود نہ ہو...
اور اگر اس طریقے کا دنیوی امور سے تعلق ہے تو ہم دیکھیں گے اس کا ہمارے مذہب پر کتنا اثر پڑتا ہے؟ ... اگر اس طریقے کو اپنانے سے ہمارے دین و مذہب پر آنچ آئے ... یا یہ احتمال ہو کہ ابھی تو  ہم یہ طریقہ اخوتِ باہمی کے جذبے سے اپنا رہے ہیں لیکن ہماری آئیندہ کی نسل اسے مذہبی شعار سمجھ کر منایا کرے گی تو یہ بھی ناجائز ہوگا ... اور خوب سمجھ لو کہ اکثر بدعات کو ایسی ہی سوچوں نے جنم دیا ہے.
اور اگر مذہب پر کوئی آنچ نہ آئے اور دینِ اسلام میں اس رسم کے گھس جانے کا خطرہ نہ ہو اور اس طریقے کی قرآن و حدیث سے تائید بھی ہوجائے تو جس کا جی چاہے اس طریقے پر عمل کرے اور جس کا نہ چاہے نہ عمل کرے...
نیز جس حدیث کو سامنے رکھ کر یہ سوال کیا گیا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب آپ نے مسلمانوں کو عاشورہ کے روزے کا حکم دیا تو یہ بھی فرمایا کہ اس کے ساتھ آگے یا پیچھے ایک روزہ اور رکھ لینا تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہوجائے....
لہذا اس حدیث سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ہم ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے موقعہ پر جو بھی طریقہ اپنائیں وہ ایسا ہونا چاہیے جو کلیتاً عیسائیوں سے مشابہت نہ رکھتا ہو....
اگر حدیث پر عمل کرنا ہے تو کیوں نہ پورے طریقے سے عمل کیا جائے؟؟؟؟
مولانا اشرف علی تھانوی رح فرماتے ہیں:
"آج کل یہ بے ہودہ رسم نکلی ہے کہ مسلمان کفار کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں اور عید بقر عید کے موقع پر انہیں شرک شریک کرتے ہیں.. یہ تو وہی قصہ ہوگیا ہے جیسا کہ مشرکوں نے آپﷺ سے کہاتھا کہ:"اے محمد!ہم اور آپ صلح کرلیں...ایک سال آپ ہمارے دین کو اختیارکرلیں اور دوسرے سال ہم آپ کےدین کو اختیار کرلیں گے"
اسی وقت سورۂ "کافرون" نازل ہوئی یعنی نہ میں تمہارا دین اختیار کروں گا اور نہ تم میرا دین قبول کروگے... تمہیں تمہارا دین مبارک مجھے میرا میرا دین...لہذا کافروں کے میلوں اور تہواروں سے تو بالکل علیحدہ رہنا چاہیے .ہندوستان میں چونکہ سبھی مذاہب والے ایک جگہ رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپس میں لڑیں نہیں باقی مسلمانوں کو ان کےمیلوں ٹھیلوں اور تہواروں میں شرکت کرنے کو بالکل بند کردینا چاہیے"!
( اشرف التفاسیر جلد چہارم ص ۳۵۱)


رسم و رواج معاشرے کی ضرورت؟؟؟

****روشن خیالی****
Hm Zubair

رسم ورواج کی اہمیت اور ضرورت
-------------------------------------
آج ہم ایک عجیب مذہبی معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں کہ جس میں کوئی رسم ورواج نہ ہو۔ ہر مذہبی شخص کے ذہن میں یہ تصور بٹھا دیا گیا ہے کہ رسم ورواج گویا کبیرہ گناہ سے کم نہیں ہے۔ اسلام رسم ورواج کے خلاف نہیں ہے البتہ اسلام اسی رسم ورواج کو پسند کرتا ہے کہ جس میں معاشرے کی فلاح وبہبود کا پہلو ہو۔ اور جو رسوم ورواج معاشرے میں ظلم اور بگاڑ کا باعث بنتے ہوں تو اسلام ان پر قدغن لگاتا ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کے لیے رسم ورواج اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ صحت مند جسم کے لیے کھیل۔ رسم ورواج کے بغیر تو معاشرہ، بیماروں کا معاشرہ ہے۔

سوسائٹی میں رسم ورواج کا پیدا ہونا یا ختم ہونا، یہ اسلام کا موضوع نہیں ہے۔ جہاں معاشرت ہو گی، انسان مل جل کر رہیں گے، وہاں رسم ورواج پیدا ہو گا، یہ لازمی امر ہے کہ یہ انسان ہیں، اپنے جذبات کا اظہار چاہتے ہیں اور وہ رسم ورواج کے بغیر نامکمل ہے۔ اسلام کا موضوع یہ ہے کہ  کوئی رسم اسلامی اقدار کے منافی نہ ہو، دین کے مقاصد کے خلاف نہ ہو، اس سے معاشرے میں ظلم اور بگاڑ پیدا نہ ہو رہا ہو، اسے دین نہ بنا لیا جائے، اسے فرض اور قانون کا درجہ نہ دے دیا جائے، اور اس میں اسراف اور فضول خرچی نہ ہو۔

اور رسم ورواج میں انہی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی اصلاح دین میں مطلوب ہے نہ کہ رسوم ورواج کو ختم کرنے کی تحریکیں چلانا۔ اگر کوئی شخص رسم ورواج کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ دراصل انسانی جذبات اور احساسات کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔  آپ ایک رسم ختم کریں گے، دوسری اس کی جگہ لے لی گی کیونکہ رسوم ورواج کا تعلق انسان کے جذبات اور تعلقات سے ہے۔ اور جب تک انسانی جذبات اور تعلقات قائم رہیں گے، یہ رسم ورواج پیدا ہوتے رہے گے لہذا اسلام کا مقصود رسوم ورواج کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ ان کی اصلاح ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی اکثر رسوم کی اصلاح کی نہ کہ سب رسموں کو بالکل ہی ختم کر دیا۔ البتہ جو ظالمانہ رسوم ورواج تھے تو انہیں آپ نے ختم کیا۔ یہ اہم نکتہ ہے کہ جسے اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور رسموں کی بھر مار تو یہ ایک دوسری انتہا ہے اور غیر متوازن رویہ ہے لہذا یہ بھی پسندیدہ امر نہیں ہے کہ ہر وقت کھیل تماشے میں ہی لگے رہو۔

اور اہم تر نکتہ یہ ہے کہ اگر غیر شرعی رسوم ورواج کو ختم کرنا چاہتے ہو تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رسوم ورواج کے خالق بنو۔ جب اپنی رسمیں ایجاد نہیں کرو گے جو عقیدہ توحید اور اسلامی کلچر کی نمائندہ ہوں تو پھر مغربی اور ہندوانہ کلچر کی رسوم ورواج سے ہی لڑتے رہو گے۔ تمہارے معاشرے، ہندو اور مغربی تہذیب سے کیوں خوفزدہ رہتے ہیں، مغربی اور پندو معاشروں کو تمہارے کلچر سے کیوں خوف محسوس نہیں ہوتا؟ اس لیے کہ تم ایسے رسوم ورواج پیدا کرنے میں بانجھ عورت کی مانند ہو کہ جو عالمی ثقافت بن سکیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اس نااہلی کو مذہب کی خدمت سمجھ رکھا ہے۔

****روشن خیالی کا رد****

اسلام کا فخر یہی ہے کہ اس میں غیرِ اسلام نہیں ہے

"اسلام کا فخر یہ ہے کہ اس میں غیر اسلام نہیں ہے جیسا کہ طبِ اکبر کے لیے فخر ہوسکتا ہے تو یہ کہ اس میں جوتیاں گانٹھنے کا بیان نہیں ہے اگر کوئی طبِ اکبر میں یہ بھی صنعت شامل کردے تو واللہ کوئی اس ہاتھ بھی نہ لگائے... میں نے بکثرت وعظوں میں اس مضمون کو بیان کیا ہے ... لوگ ان کو خشک مضامین کہتے ہیں تر مضامین وہ ہیں جن میں ایک غیور مسلمان کو ڈوب مرنا پڑے... آج کل کے اسکالر اور دانشور حامیانِ اسلام نہیں بلکہ ماحیانِ اسلام ہیں"!!
(الانتباھات المفیدہ عن الاشتباھات الجدیدہ)
باتیں کرنا آسان ہے ... اگر "ہم رسم رواج پیدا کرنے میں بانجھ عورت کی مثال ہیں اور نا اہل ہیں" تو تم ہی کوئی ایسی رسم پیدا کر کے دکھاؤ جو عقیدۂ توحید اور اسلامی کلچر کی.نمائندہ ہو اور اسلامی اقدار کے منافی نہ ہو ... شروع شروع میں ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی خاص خامی نہ ہو ... لیکن رفتہ رفتہ آپ کی پیدا کی ہوئی یہ رسم ایک سنگین بدعت کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس کی شہادت تاریخ بھی دیتی ہے ...یہ جتنے بھی رسم رواج آج اسلام میں اسلام کے نام پر دھبہ بنے ہوئے ہیں ان کی ابتدا بہت ہی خوش گوار اور پسندیدہ تھی...لیکن رفتہ رفتہ کیا ہوا وہ آپ کے سامنے ہے.
اس لیے اسلام کو اسلام ہی رہنے دو ... اس میں اپنی روشن خیالی کے ڈِرل مشین سے چھید کرنے کی کوشش مت کرو... اگر کوئی رسم و رواج پیدا کرنا ہو تو اسے اپنے سماج اپنے خاندان اپنی برادری سے موسوم کرو اسے اسلامی رنگ میں رنگنا محض جہالت اور اسلامی قدروں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے...
خود اسلام میں جو رسم رواج پیدا ہوگئے ہیں اسلام ان کی اصلاح کا تقاضا نہیں کرتا ہے بلکہ جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کو پسند کرتا ہے ... غیرت مند مسلمانوں نے پہلے بھی ایسی رسم رواج کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور اس کا خاتمہ کیا تھا آئندہ بھی ان شاء اللہ ایسی کوشش کرکے اسلام میں در آئے رسم و رواج کے خلاف جنگ لڑی جائے گی اور انہیں مٹانے کی.پوری کوشش کی جائے گی...


غیر اسلامی festivals اور مسلمان

ایک دفعہ مدینہ میں دو گروہ آپس میں جھگڑنے لگے... دونوں ہی آسمانی کتاب اور اللہ کے نبی کے ماننے والے تھے... ایک گروہ دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ:"تم ہر گز جنت میں نہیں جاؤگے جنت تو ہم نے اپنے نام رجسٹرڈ کروالی ہے" .... دوسرے گروہ نےکہا : "اونہہ... جنت میں صرف ہم ہی جائیں گے ... تمارے لیے جنت میں کوئی جگہ نہیں"...اللہ تعالی سب سن رہا  تھا اس نے اپنے نبیﷺ سے کہا: "ان پاگلوں سے کہہ دو کہ زیادہ ڈینگیں نہ ماریں... جنت صرف ان لوگوں کا حق ہے جو دل سے ایمانِ کامل اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے بتلائے ہوئے احکام پر ظاہراً بھی عمل پیرا رہتے ہیں(بلی من أسلم وجهه إلى الله وهو محسن فله أجره عند ربه ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون)
پتہ چلا کہ جنت میں جانے کے لیے صرف مسلمانوں والے نام رکھ لینا یا کسی نبی کی امت میں ہوجانا کافی نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد ان کے حکموں پر بھی عمل کرنا ضروری ہے ... جو یہ سمجھتے ہیں کہ بس کلمہ پڑھ لینا کافی ہوگیا اب ہمیں جنت میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ..  وہ صریح غلطی پر ہیں... صرف مؤمن ہونا اور چیز ہے اور صرف مسلم ہونا اور چیز ... اور پکا مؤمن اور مسلم ہونا اور چیز ہے...
اللہ اور اس کے رسول کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کا نام اسلام ... دونوں کا محل ایک ہی ہے"دل"... 
ایمان اور اسلام میں ایسا زبردست تعلق ہے کہ ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے غیر معتبر ہے ... یعنی اگر کوئی صرف اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کرے اور عمل کے ذریعے اطاعت و فرماں برداری کا ثبوت نہ دے تو یہ مؤمن تو کہلائے گا لیکن ایمان غیر معتبر ہوگا...اسی طرح اگر کوئی عمل کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری دکھاتا ہے لیکن دل سے ان کی تصدیق نہیں کرتا تو یہ مسلم کہلائے گا لیکن اس کا اسلام غیر معتبر ہوگا .... اسی کو قرآن نے کہا ہے"قالت الاعراب: آمنا،قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا" دیہاتیوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے، اے نبیﷺ! کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ یہ کہو کہ ہم صرف ظاہرا اطاعت و فرماں برداری کر رہے ہیں...چونکہ ایمان نہیں تھا اس لیے اللہ نے ان کا اسلام غیر معتبر بتایا ...اللہ نے کامیاب اور جنت میں جانے والا بتایا تو اسی کو بتایا جو پکا مؤمن بھی ہو اور پکا مسلم بھی" بلی من أسلم وجهه إلى الله وهو محسن "اللہ کہہ رہا کہ جنت کے حق دار صرف وہی لوگ ہیں جو اپنا رخ اللہ تعالی کی طرف کردیں یعنی عقائد و اعمال میں فرماں برداری اختیار کر چکے ہوں اور ساتھ ساتھ میں اپنی اس فرماں برداری میں مخلص بھی ہوں یعنی فرماں برداری دل سے اختیار کی ہو ان دیہاتیوں کی طرح کسی مقصد سے صرف ظاہر داری نہ ہو ...
***************************************
اس تفصیل کو سامنے رکھ کر اب موجودہ حالات کے تناظر میں اپنے دل کو ٹٹولیں کہ ہم اپنے ایمان اور اسلام میں کتنے مخلص ہیں؟صرف مؤمن ہیں (no guaranty)؟ یا صرف مسلم (no guaranty)؟یا پکے مومن اور مسلم (جنت واجب)؟
اگر ہم نجات چاہتے ہیں اور اللہ کے مقرب بننا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس کے احکام کو بجالائیں...جس کے کرنے کا حکم دیا ہے اسے کریں اور جس سے منع کیا ہے اس سے کوسوں دور رہیں... اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی سے بچیں....اگر ہم یہ کام کرتے ہیں تو اللہ سے پوری پوری امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں جنت میں ضرور جگہ عطا فرمائے گا...
لیکن آج ہمارا یہ حال ہوگیا ہے کہ جو کرنے کے کام تھے انہیں ہم نے چھوڑ دیا اور جن سے منع کیا گیا تھا انہیں گلے سے لگا بیٹھے! ... اس کے بعد بھی دلوں میں یہ امید کے ہم جنت میں ضرور جائیں گے... مسلمان جو ہیں ...!
ان سب باتوں کے پیچھے بس ایک سبب ہے وہ یہ کہ ہم اپنا مقصد بھول چکے ہیں ... ہمیں اپنی منزل تو یاد ہے لیکن راستہ بھٹک چکے ہیں ...ہاتھ میں کتابِ ہدایت تو ہے لیکن پڑھنا بھول گئے ہیں ... ایمان کی حلاوت ہمارے دلوں سے نکل چکی ہے ... نبیﷺ کی محبت ہمارے دلوں سے روٹھ کر جا چکی ہے ... اللہ کا خوف نہیں رہا ... اپنے حقیقی ابدی گھر کو بھلاکر فانی دنیا سے دل لگا بیٹھے ... ناچ گانوں میں ایسا الجھے کہ نہ قرآن کی تلاوت یاد رہی اور نہ نمازوں کی حلاوت....
ہمیں اگر دنیا میں پھر سے کھڑا ہونا ہے.. اپنی چودہ سو سالہ پہلے کی تاریخ لوٹانا ہے تو ہمیں اپنا مقصد یاد کرنا ہوگا .... اور ہمارا مقصد وہی ہے جو ربعی بن عامر نے رستم سے کہا تھا:"اللہ ابتعثنا؛لنخرج من شاء من عبادة العباد الی عبادة الله وحده" کہ اللہ نے ہمیں مبعوث فرمایا ہے تاکہ ہم اللہ کی مشیئت سے اللہ کے بندوں کو انسانوں کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت میں لگائیں"...
انہوں نے یہ نہیں کہا کہ "اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے" یا "اس کام کے لیے ہم خود کھڑے ہوئے ہیں"بلکہ کہا کہ"اللہ نے ہمیں مبعوث فرمایا ہے"یعنی اللہ نے ہمیں ذمہ داری بخشی ہے کہ ہم اللہ کے بندوں کو تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لائیں ...اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے آج کے مسلمان غافل ہیں...وہ جانتے ہی نہیں کہ ہمارے نبی کی بعثت دو مرتبہ ہوئی ہے ایک مرتبہ خود آپﷺ  کی ذات کی شکل میں اور ایک مرتبہ اس امت کی شکل میں جس کی اطلاع آپﷺ نے اپنے اس جملے سے اپنی امت کو دی تھی"بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین"کہ تم آسانی پیدا کرنے کے لیے مبعوث ہوئے ہو تنگی پیدا کرنے کے لیے نہیں...
یہ ہے ہمارا مقصد اور اسی پر اس امت کی کامیابی موقوف ہے جب تک یہ امت اپنی اس ذمہ داری کو دوبارہ نہیں سنبھالتی ہے تب تک یہ اسی طرح دوسری قوموں کے سامنے خائب و خاسر رہے گی...
***************************************
آج ہم اپنے معاشرے پر نظر کریں تو ہمیں ہر ایک اونگھتا ہوا نطر آتا ہے سبھی نے اپنی اس ذمہ داری کو فراموش کردیا ہے وہ بھول چکے ہیں کہ  اللہ نے ان کے کاندھے پر یہ ذمہ داری ڈال کر وارننگ دے دی تھی کہ "وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین"اگر دنیا میں سرخرو رہنا چاہتے ہو تو تمہیں اُس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانا ہوگا جو نبیﷺ نے اپنے بعد تمہارے کاندھوں پر ڈالی ہے....
مگر افسوس جنہیں اللہ نے دنیا کا قائد و رہنما بنا کر بھیجا تھا وہ آج دنیا کی روایات میں الجھ کر دنیا کے غلام بن گئے... جنہیں بھٹکے ہوئے لوگوں کو تاریکی سے نکالنا تھا وہ آج خود اس تاریکی میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں ...
"کلکم راعٍ وکلکم مسؤلون عن رعیتہ" احساسِ ذمہ داری .... نبیﷺ نے چودہ سو سال پہلے ہی ہمیں تاکید کردی تھی کہ احساسِ ذمہ داری کو مردہ مت ہونے دینا ورنہ پوری قوم مردہ ہوجائے گی...
"کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ"ہم صرف اپنے بچوں کی اچھی دینی تربیت کے سلسلے میں بیدار ہوجائیں ...گھروں کا ماحول دینی بنادیں تو بھی امت کا مستقبل سنورنے کی امید ہے..حیرت ہوتی ہے کہ عیسائیوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ مسلمانوں کے بچوں کی ذہنیت بدل دو پوری امتِ مسلمہ تباہ ہوجائے گی ... لیکن مسلمانوں کو اتنی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ہمیں اپنا مستقبل سنوارنا ہے تو اپنے بچوں کا مزاج دینی بنانا ہوگا... 
بچے ہی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں جیسی تربیت ہوگی ویسا ہماری قوم کا مستقبل ہوگا... ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اللہ نے بچوں کو فطرتِ اسلام پر پیدا کیا ہے تو ہم ان کی اس فطرت کو ضائع نہ ہونے دیں...ہم صحابہ کے رتبے کو نہیں پاسکتے تو کیا ہم میں سے ہر ایک باپ "نور الدین زنگی" اور ہر بیٹا "صلاح الدین ایوبی"اور "محمد ابن قاسم" نہیں ہوسکتا؟؟!
اللہ کی عطا کی ہوئی فطرتِ اسلام کی حفاظت ہر ماں میں حضرتِ خنساء رضی اللہ عنھا اور نور الدین زنگی کی بیوہ کے جذبے اور بہادری کو بھی پیدا کرسکتی ہے...
اگر ہم نے اپنے مسقبل کی حفاظت نہیں کی اور اپنے بچوں میں اللہ کی عطا کی ہوئی فطرتِ اسلام کو ضائع ہونے سے نہیں بچایا تو پھر وہ دن بھی دور نہیں ہوگا جس کی پیش گوئی آپﷺ نے بہت پہلے فرمادی تھی"سوف تداعى عليكم الامم كما تداعي الأكلة إلى قصعتها" کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے لوگ کھانا کھانے کے لیے ایک دوسرے کو بلاتے ہیں...اور یہ اس لیے ہوگا کیونکہ مسلمانوں نے اپنے مسقبل کی فکر نہیں کی اور فطرتِ اسلام کو ضائع کرکے دنیا کی محبت میں ڈوب گئے ... اللہ.کے راستے میں جان کی بازی لگانے کو ناپسند کرنے لگے ...
دنیا کی محبت میں مسلمان ایسے ڈوبے کہ انہیں اسلام اور غیرِ اسلام میں امتیاز کرنا بھی مشکل ہوگیا...
***************************************
اب یہی دیکھ لیجیے انگریزی سال اختتام پذیر ہے ... تھرٹی فرسٹ میں کچھ دن رہ گئے ہیں.. اس وقت مسلمان یہ دیکھنے کی بجائے کہ شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے وہ دنیا داروں کو دیکھتی ہے کہ "آقاؤں" کا کیا عمل ہے ... ایمان کا ضعف اتنا بڑھا کہ سارے جائز نا جائز تہواروں کو اپنا تہوار بنالیا اور غافل ہوکر ان تہواروں کو دھوم دھام سے منانے لگے... حالانکہ شریعت نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کے صرف دو تہوار ہیں عید اور عیدالاضحی ان کے علاوہ سارے تہوار خرافات ہیں ان کا منانا کسی مؤمن کے لیے جائز نہیں.
سیدنا انس بن مالک بیان فرماتے ہیں :
كَانَ لِأَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَانِ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ قَالَ كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا وَقَدْ أَبْدَلَكُمْ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى
[سنن النسائي , كتاب صلاة العيدين بابٌ (1556)]
اہل جاہلیت کے دو دن ایسے تھے جن میں وہ کھیلا کرتے تھے تو جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا " تمہارے دو دن تھے جن میں تم کھیلا کرتے تھے اور اب اللہ تعالى نے تمہیں ان کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن عطاء فرمائے ہیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحى کا دن" ۔
ان دو عیدوں کے علاوہ جتنے تہوار یا رسومات ہیں خواہ وہ عید میلاد ہو تھرٹی فرسٹ ہو ویلینٹائن ہو یا ان جیسے دوسرے تہوار ....
اگر ہم یہ تہوار اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے مناتے ہیں تو یہ سنگین بدعت ہے؛کیونکہ اسلامی دو تہواروں کو چھوڑ کر ہم نے تیسرے تہوار کی بنیاد ڈال دی ہے اور اگر یہ تہوار دوسروں کی دیکھا دیکھی مناتے ہیں تو لازما یہ تہوار کسی نہ کسی خاص قوم کے ساتھ مخصوص ہوگا.... تو جس قوم کا بھی یہ تہوار ہوگا ان کے ساتھ شرکت کی وجہ سے ہماری ان کے ساتھ مشابہت پائی جائے گی اور حدیث میں ہے"من تشبہ بقوم فھو منھم" جو کسی قوم "کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں شمار کیا جائے گا ... اور غیر مسلموں کے تہوار میں ہماری شرکت کی وجہ سے ان کی اکثریت میں اضافہ ہوتا ہے یہ بھی ہمارے لیے خطرناک ہے کیونکہ اس سے غیر مسلموں کو تقویت ملتی ہے اس لیے نبیﷺ نے فرمادیا تھا"من کثر سواد قوم فھو منھم"یعنی جس نے کسی قوم کے تہوار وغیرہ میں شرکت کرکے ان کی اکثریت میں اضافہ کیا اس کا حشر انہیں کے ساتھ ہوگا....اللہم احفطنا منہ!
***************************************
نیا سال نیا سال ... آخر نیا سال آنے سے خوشی کس بات کی منائی جاتی ہے ...ایسا کیا پالیا ہم نے اپنے گذشتہ سالوں میں جس کی اس نئے سال میں بھی امید ہے...کتنے اچھے کام کیے ہم نے اس سال ... کتنے غریبوں کی مدد کی...کتنے بھوکوں کو کھانا کھلایا کتنی بیواؤں کو سہارا دیا ...کتنے یتیموں کے سر پر دست شفقت پھیرا؟؟؟؟
گزشتہ سال بھی تو ہم نے تھرٹی فرسٹ منایا تھا؟لیکن نہ جانے کتنوں پر ہم نے ظلم کیا ... کتنوں کو دھوکا دیا ... کتنوں کے حق کو دبایا ...شاید نئے سال کی خوشی اس لیے منائی جاتی ہے کہ ہمیں ایک سال اور اپنی من مانی کرنے کا مل رہا ہے؟؟
دھوکہ....ہر انسان خود کو دھوکہ دے رہا ہے ... یہ انسان اندر سے اتنا ٹوٹ چکا ہے کہ حقیقی خوشیوں سے محروم ہونے کی وجہ سے مصنوعی خوشیوں سے دل بہلانے لگا...انسان چاہے جتنی خوشیاں منالے لیکن حقیقی خوشی اور دل کا سکون اسی وقت نصیب ہوگا جب ہر طرف عدل و انصاف اور سلامتی کا بول بالا ہو... اور یہ تبھی ممکن ہے جب دلوں سے لالچ اور بے جا آرزؤئیں نکل جائیں ...حقدار اپنے حقوق کو پہچانیں اور اللہ نے جنہیں جتنا دیا ہے اس پر قناعت کرلیں...نہ کوئ غریب امیر سے حسد کرے نہ کمزور طاقت ور سے نہ نوکر آقا سے نہ جاہل عالم سے ... اور دلوں میں الفت و رحمت کا ایسا جذبہ موجزن ہو کہ ملک میں نہ کوئی ننگا دکھے نہ بھوکا نہ سڑکوں پر بیوائیں اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی مانگتی ملیں نہ جنگل میں کوئ مردہ لڑکی ہوس کا شکار ملے...نہ بچے کوڑے دان میں پھینکے ملیں...نہ کوئی بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرا ہوا ملے ... جرائم کے جراثیم معاشرے سے ایسے ناپید ہوجائیں کہ معصوم لوگوں کو نہ کوئی دین و مذہب کے نام پر لوٹ سکے اور نہ وطن کے نام پر... یہ ڈاکٹرز یہ وکلاء یہ تاجر یہ رائٹر یہ قائد،انسانیت کا خون چوسنا چھوڑ کر انسانوں کی زندگی کو صحیح رخ پر لگانا شروع کردیں ...ہر طرف جی ہاں! ہر طرف حقیقی امن و امان اور سکون قائم ہوجائے اور ہر آنے والا سال گذشتہ سالوں کی بنسبت بہتر اور خوشیوں والا ہو تو بے شک ہمیں ایسے ہر سال کا انتظار رہنا چاہیے...
لیکن امن و سکون کیا happy new yer سے ملے گا؟ نہیں ہمیں امن و سکون چاہیے تو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا..."واعتصموا بحبل الله جمیعا ولاتفرقوا "ایک دوسرے کا تعاون کرنا ہوگا...نظریاتی اختلاف کو ذہن تک ہی محدود رکھنا ہوگا...فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کا خون کا پیاسا ہونے سے گریز کرنا ہوگا...
امن و امان اور حقیقی خوشی چاہیے تو ہمیں اسلام کے لیے ایسے جانثار تیار کرنے پڑیں گے جو وقت پڑنے پر اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہوجائیں ...بچوں کے ذہنوں سے عیسائیت کے گندے کیڑے نکال کر انہیں اللہ کی عطا کی ہوئی فطرتِ اسلام پر واپس لانا ہوگا...
حقیقی مسرت چاہیے تو اللہ کے آگے رونا گڑگڑانا پڑے گا...دلوں میں امت کے لیے درد پیدا کرنا ہوگا...گھروں کا ماحول اسلامی بنانا ہوگا...نماز با جماعت کی پابندی کرنی ہوگی...امت میں "فکرِ امت "کو جگانا پڑے گا...تلاوتِ قرآن کی کثرت کرنی ہوگی...اُن سب برائیوں سے دور رہنا ہوگا جن سے شریعت نے منع کیا ہے ...آپﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنانا ہوگا...
ورنہ اگر یہی حالت رہی تو خدانخواستہ آج ہم غیرمسلموں کے تہواروں میں شرکت کر رہے ہیں کل ہماری اولاد اور ہمارا مستقبل عیسائیوں کے چرچ یا ہندؤوں کے مندر میں جا کھڑا ہو !! اور اس کے ذمے دار صرف ہم ہوں گے!
***************************************
سچے مسلمان کو تھرٹی فرسٹ،ویلینٹائین ڈے اور اپریل فول جیسے تہواروں کی تاریخ اور ان کی قباحتیں بتانا ضروری نہیں انہیں تو بس یہ معلوم ہوجائے کہ یہ سب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مرضی کے خلاف اور ان کے دشمنوں کے تہوار ہیں تو وہ ایسے تہواروں کو دور سے دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے چہ جائیکہ اس میں شرکت کریں...اور جنہیں ماننا ہی نہ ہو... اپنے من کی کرنا ہو تو ایسوں کے لیے ہزار دلیلیں بھی بے کار ہیں...ایسے لوگ اگر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں تو سن لیں:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى.’’اور جس نے میرے ذکر (یعنی میرے اور میرے نبیﷺ کے حکم ) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے‘‘۔طہ، 20 : 124
أعاذنا الله منه!
آخر میں ایک اصول بتاتا چلوں،جس سے صحیح راستے پر چلنے میں آسانی ہوگی اور اللہ کے غصے کو دعوت دینے سے محفوظ رہیں گے:
دنیا میں پتہ نہیں کتنے تہوار ہیں ...خود مسلمانوں نے اتنے تہوار ایجاد کرلیے ہیں کہ ان کی گنتی بھی مشکل ہے...ایسے وقت ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس  تہوار کو ہم ثواب سمجھ کر منارہے ہیں یا دوسری قوموں کی نقل کر رہے ہیں اگر ثواب سمجھ کر منارہے ہیں تو دیکھیں کہ یہ تہوار قرآن و حدیث یا صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے ثابت ہے یا نہیں اگر ثابت ہے تو ضرور ثواب ملے گا...اور اگر ثابت نہیں تو بدعت ہوگا اور بدعت بہت بڑی گمراہی ہے انسان کو جہنم تک پہونچا دیتی ہے...
اور اگر دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی منا رہے ہیں تو ان کے تہوار میں شریک ہوکر ان کی اکثریت میں اضافہ کر رہے ہیں اور غیر مسلموں کی اکثریت میں اضافہ کرنے والوں کے لیے بہت سخت وعید آئی ہے"من کثر سواد قوم فھو منھم"کہ ایسے لوگوں کا حشر انہیں غیر مسلموں کے ساتھ ہوگا...نعوز باللہ منہ
اسلام میں بس دو تہوار ہیں ۱)عید ۲)عید الاضحٰی، ان کے علاوہ سب تہوار مسلمانوں کے لیے جہنم کی تلوار ہیں جس کا جی چاہے ان پر چل کر اپنی عاقبت خراب کرلے اور جس کا جی چاہے ان سے بچ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کو راضی کرلے!"فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر"!

کیا قربانی کرنا ظلم ہے؟؟؟

قربانی قُرْبَانْ سے ہے، صراح میں لکھا ہے، "قُربان بالضم وھو ما یتقرب بہ الی اللہ تعالی"..... یقال: قربت للہ قربانا. یعنی قربان اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بندہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرتا ہے... چونکہ قربانی سے اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اس لیے اس فعل کا نام بھی"قربانی" ہوا.
(احکامِ اسلام عقل کی نظر میں)

******************************
قربانی کا حکم خود اللہ تعالی نے دیا ہے"فصل لربک وانحر" پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو... 
اور خود اللہ تعالی نے جانوروں کا گوشت کھانا حلال فرمایا ہے"والانعام خلقھا لکم فیھا دفأ و منافع ومنها تأكلون" اور چوپائے اسی (اللہ) نے پیدا کئے جن میں تمہارے لئےسردی سے بچاؤ کا سامان ہے، اور اس کے علاوہ بھی بہت سے فائدے ہیں، اور انہیں  (جانوروں) میں سے بعض کو تم کھاتے ہو! 
قربانی رب کائنات کی طرف سے مقرر کردہ ایک اہم فریضہ ہے ...جس کی ادائیگی ہر صاحب نصاب پر ضروری ہے... قربانی سے محض اپنی بندگی کا اظہار اور خود کو اللہ کے لئے قربان کردینے کا جذبہ معلوم ہوتا ہے... نہ اللہ کو قربانی کے جانوروں کی کھالیں پہنچتی ہیں... نہ ان کے خون اور نہ ہی گوشت! لن ینال اللہ لحومھا ولا دمائھا ولکن ینالہ التقوی منکم... لیکن آج تقوی کم اور دکھاوا زیادہ ہوگیا ہے خود سوچیے کہ اللہ تعالی تک کیا پہنچتا ہوگا!

******************************
تمام دنیا میں یہ دستور ہے کہ چھوٹی اور ادنی چیزوں کو بڑی اور اعلی چیزوں پر قربان کردیا جاتا ہے جیسے بدن کے کسی حصے میں پوائیزن ہوجائے تو اس حصے کو پورے بدن کی حفاظت کے لئے قربان کردیا جاتا ہے... کوئی مہمان آجائے تو گھر میں موجود مرغی بکری اور دوسری قیمی چیزیں اس کے لئے قربان ہوجاتی ہیں...
جو لوگ اسے ظلم کہتے ہیں اور جیو ہتھیا کا الزام لگاتے ہیں خود ان کے ہی ہاتھوں میں مچھر مار بیٹ منٹن کثرت سے موجود ہوتا ہے... چوہے مار دوا کثرت سے خریدتے ہیں...ان جانوروں کو اپنی حفاظت کے لئے مارنا یہ بھی قربان کرنا ہے... کوئی بڑا آدمی نیتا یا لیڈر آجائے اس کی راحت کے لئے ملازموں کو جو سخت محنت کرنی پڑتی ہے یہ بھی قربانی ہے ...چھوٹے لوگوں کی راحت کو بڑے آدمی کی راحت کے لئے قربان کیا جارہا ہے...! 
جب پوری دنیا کا یہی دستور ہے اور فطرت کا یہی اصول ہے کہ ادنی اعلی کے لئے قربان ہوگا تو اس پر اس طرح واویلا مچانا اور ذبح کو ظلم کہنا سراسر ظلم ہے...
جانور کا ذبح کرنا انہیں ظلم دکھائی دیتا ہے اور جب انسان ذبح کیے جاتے ہیں تو ؟؟؟
اعلی اعلی کو اشرف اشرف کو قتل کرتا ہے تو؟
کوئی فطرت کے خلاف انسانیت کا جنازہ نکالتا ہے تو؟
کیا یہ آواز اس وقت بھی آئی تھی جب انسانیت کا غیر فطری طریقے سے قتل کیا جارہا تھا... گجرات فساد میں یہ آوازیں کس ڈھیر تلے دبی ہوئی تھیں... مظفر نگر میں جب قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا تو "ظلم ظلم" چیخنے والے کہاں مرگئے تھے؟؟ آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کے ساتھ بھیمانہ سلوک کیا جارہا ہے... ان پر میزائیلیں چھوڑی جارہی ہیں... بم برسائے جارہے ہیں... گھروں میں گھس کر عورتوں بچوں کو مارا پیٹا جارہا ہے...دفاع کرنے والے نوجوانوں کا بے رحمی سے قتل کیا جارہا ہے...کشمیر کی حالت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے... لیکن "رحم دل "لوگ اسی طرح خاموش ہیں جیسے کوئی ماردھاڑ والی فلم دیکھ رہے ہوں... کیا دنیا میں ہو رہا انسانوں کا یہ قتلِ عام ظلم نہیں ہے... کیا فطرت کے خلاف عمل نہیں ہے...
ایسے وقت میں "رحم دلوں" کی خاموشی اور قربانی کے موقعہ پر واویلا کچھ اور ہی کہتا ہے...انسانیت کا قتل جو کہ ایک غیر فطری عمل ہے اس پر خاموشی.... اور جانوروں کو فطرت کے تقاضے سے ذبح کیا جائے تو ظلم؟؟!

******************************
خود جن کی مذہبی کتابیں قربانی کے فضائل اور اس کے طریقوں کے بارے میں بھری پڑی ہوں. کسی کو شک ہو تو اسے رگوید کے منڈل :۱، سوکت :۱۶۲، انوواک:۲۲ کے منتر ۴۰۳، ۹ تا ۱۶، ۱۸ تا ۲۰ منتروں میں ذبح کرنے، گوشت کاٹنے ، پکانے، کھانے کا طریقہ تفصیل سے رجوع کرنا چاہئے جہاں ساتھ ہی پکوان کا بھی ذکر مذکور ہے. برادران وطن اگر اپنے ہی گریبان میں جھانکیں تو بہت سی باتیں پتہ چلیں گی. عقائد اور مذہبی کتابوں کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان کی عقلوں پر ماتم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاسکتا...
ہم یہاں صرف ایک مثال دے کر باقی حوالہ پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں.. مثال سے ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ بقیہ حوالوں میں کیا باتیں لکھی ہوں گی... اگر مزید تحقیق مقصود ہو تو کسی ہندو مذہب کے ماہر سے رجوع کر لیا جائے.. 
مثال:
وشنو دھرمو ترپران میں ہے کہ: وہ جو ان کا گوشت کھاتے ہیں جو کھانے کے لائق ہیں، وہ کوئی اپرادھ (گناہ) نہیں کرتا، چاہے وہ ایسا روزانہ ہی کیوں نہ کرے، کیونکہ کھانے کے لائق جانور اور نہ کھائے جانے کے لائق جانور کو برہما جی نے پیدا کیا ہے، قربانی کا گوشت کھانا صحیح ہے، اسے دیوی رسم و رواج کے مطابق دیوتاؤں کا حکم مانا جاتا ہے۔ (۳۰۳)
مزید حوالے :
”رگ وید“ (منڈل:۱۰، سوکت منتر:۱۳) اس میں بیل کا پکانے اور اس کو کھانے کا تذکرہ ہے
(۶-۱۱-۱۷) اس میں بھینس کے کھانے کا تذکرہ ہے. 
(۱۰-۲۷-۲) (۱۰-۲۷-۱۳) ان دونوں میں بیل کے پکانے کا تذکرہ ہے. 
رگ وید  (۱۰-۸۵-۱۳) گائے کا تذکرہ ہے. 
(۱۰-۸۶-۱۴) بیل کے گوشت اور اس کے فوائد بتائے گئے ہیں. 
اتھروید کے کھنڈ ۹، انوواک: ۱۹، منتر:۶ اس میں گوشت کو جل (پانی) اور گھی سے پکا ہوا سب سے اعلی کھانا بتایا گیا ہے. 
ہندو قانون کی بنیادی اور مسلمہ کتاب (مہابھارت انو شاسن پرو، ادھیائے:۸۸، شلوک :۵، منوسمرتی :۳۶۸) اس میں کہا گیا ہے کہ جو ایک خاص موقعہ پر گوشت نہیں کھائے گا وہ نرک میں جائے گا. 
ڈاکٹر امبیڈکر کی کتاب ’اچھوت کون تھے اور اچھوت کیوں بنے‘ کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کے ہندو گائے کو مقدس مانتے تھے... لیکن وہ اس کی قربانی بھی کرتے تھے اور اس کا گوشت بھی کھاتے تھے.

******************************
آج جب کہ سائنس سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے،جسے قرآن نے چودہ سو سال پہلے بتادیا تھا، کہ نباتات میں بھی زندگی ہوتی ہے وہ بھی سانس لیتے ہیں... کھاتے ہیں پیتے ہیں... احساس کرتے ہیں... تو کیوں یہ"رحم دل" ان کی قربانی کرتے چلے جارہے ہیں... اپنی آسائش کے لیے انہیں کاٹا جارہا ہے.... جنگل کے جنگل صاف کیے جارہے ہیں... کیا یہ ظلم نہیں ہے...آپ ایک مخلوق کو قربان کر رہے ہیں اپنی آسائش کے لیے...بنا اس مخلوق کے رب کی اجازت کے.... اور ہم ایک مخلوق قربان کر رہے ہیں لیکن اپنی آسائش کے لیے نہیں.. بلکہ اس مخلوق کو پیدا کرنے والے کے حکم اور اس کی اجازت سے....بس فرق یہ ہے کہ آپ جاندار غیرماشی کو قربان کر رہے ہیں.. اور ہم جاندار ماشی کو... بتائیے ظالم کون؟
******************************
یہ فطرت کا تقاضہ ہے کہ شرعا جن جانوروں کا ذبح کرنا جائز ہے انہیں ذبح کیا جائے.... یہی وجہ ہے کہ حلال جانور کثرت سے پیدا ہوتے ہیں... اللہ تعالی کا نظام ایسا ہے کہ جو چیز دنیا کے استعمال میں زیادہ ہے اور انسانوں کو جس چیز کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے... اسے اتنا ہی عام اور وافر مقدار میں پیدا کیا ہے... دو چیزیں انسانوں کے لئے بہت ضروری ہیں جن کی روز ہی ضرورت پڑتی ہے... ہوا پانی... دیکھ لیجیے یہ دونوں چیزیں کتنی عام ہیں... ان میں سب سے زیادہ ضروری ہوا تھی اسے ہر جگہ موجود کردیا اور پانی کی ہوا کے مقابلے میں کم ضرورت تھی اس لئے اسے متعینہ جگہوں پر ہی موجود کیا... 
اگر حلال جانوروں کو ذبح کرنا ظلم ہوتا... اور خالق کائینات کو ان کا ذبح کرنا پسند نہیں ہوتا تو دوسرے جانوروں کی طرح ان کی نسل بھی ختم یا کمیاب کردیتا... لیکن حلال جانوروں کی کثرت اور ان کی افزائش بتاتی ہے کہ یہ کام رب کائینات کی منشا کے عین مطابق ہے...

******************************
نیز گوشت کھانا انسانی فطرت کا تقاضہ ہے... انسان کو متوازن غذا کے لئے چھ اجزاء کی بنیادی طور پر ضرورت پڑتی ہے
1)لحمیات (Protein
حیاتین (Vitamins)  
3)ریشہ دار اجزاء (Fibre) 
4)نشاستہ (Carbohydrates) 
5)معدنی نمکیات(Minerals salts) 
6)شحمیات (Fat)
اور یہ چھ اجزاء گوشت میں وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں...سبزیوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن بہت کم...

******************************
اللہ تعالی کی مخلوقات میں غور کیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ جن جانوروں کی فطرت میں اللہ تعالی نے گوشت خوری رکھی ہے ان کے دانت نوکیلے ہوتے ہیں.. جیسے شیر چیتا بھیڑیا وغیرہ شکاری جانور... اور جن کی فطرت میں گوشت خوری نہیں ہے ان کے دانت سپاٹ ہوتے ہیں جیسے بکری بھینس گائے بیل وغیرہ گھاس چارا کھانے والے جانور.. 
اور انسانوں کے دانتوں کو دیکھا جائے تو اللہ تعالی نے اسے دونوں طرح سے بنایا ہے... نوکیلے بھی ہیں اور سپاٹ بھی... جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی فطرت میں ہی گوشت کھانا ہے... جس کے لیے نوکیلے دانت ہیں.. اور سبزی وغیرہ کھانے کے لئے سپاٹ دانت...

******************************
مزید گہرائی میں ہم جائیں گے تو دیکھیں گے کہ جن جانوروں کی عادت گوشت کھانے کی نہیں ہے انہیں اگر گوشت کھلادیا جائے تو ان کا نظام ہضم تحمل نہیں کرپاتا ہے وہ بدہضمی کا شکار ہوجاتے ہیں... کیونکہ ان کی فطرت میں گوشت خوری نہیں ہے اس لیے اللہ تعالی نے ان کے معدوں میں گوشت کو ہضم کرنے کا سسٹم ہی نہیں رکھا ہے... جبکہ انسان گوشت کھا کر اسے ہضم کر لیتا ہے... اگر اللہ تعالی کو انسانوں کی گوشت خوری پسند نہ ہوتی تو وہ ان کے معدوں میں گوشت کو ہضم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا... نہ گوشت ہضم ہوتا نہ انسان گوشت کھاتے... انسان کے پیٹ میں گوشت ہضم ہورہا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کو انسان کا جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھانا ناپسند نہیں ہے...
******************************
روح چھوٹی ہو یا بڑی بہر حال روح ہے.. وہ روح چھوٹے جسم میں رہے یا بڑے جسم میں بہر حال جان ہے... اور جان چیونٹی کی ہو یا انسان کی یا جانور کی سب کو ایک طرح کی ہی تکلیف ہوتی ہے... اس لئے ان "رحم دلوں" کو چاہئے کہ آج سے وہ گھاس پر نہ چلیں اس میں بھی جان ہوتی ہے... چلتے وقت خوب پھونک پھونک کر قدم رکھیں کہیں کوئی جانور چیونٹی مکھی کاکروچ وغیرہ پیر کے نیچے نہ دب جائیں اور بھیانک پاپ ہوجائے!
******************************
اتنا تو طے ہے کہ ہر جاندار کی موت اس کے متعینہ وقت پر ہی آتی ہے... نہ ایک پل آگے نہ ایک پل پیچھے... اگر ہم جانوروں کو ذبح نہ کریں تو بھی ان کی موت ہوگی لیکن یہ موت ان جانوروں کے لیے بہت تکلیف دہ ہوگی... تڑپ تڑپ کر ان کی روح نکلے گی... کبھی کبھی تو پورا دن اسی جانکنی کے عالم میں گزر جاتا ہے... پھر جب ہم ان کی موت کے وقت انہیں آسان موت دے دیں اور انہیں تڑپنے اور جانکنی کی لمبی مدت سے بچالیں تو بتائیے یہ ظلم ہوا یا ان جانوروں پر رحم؟؟! 
رحم دلوں! رحم دلی کا رخ موڑو... تاکہ انسانیت کا کچھ بھلا ہوجائے!

نعرۂ ایمانی یا نعرۂ شیطانی؟؟؟


(سوشل میڈیا پر یہ نعرہ بہت دنوں سے لگایا جارہا ہے... اور لوگ اس سے خوب متاثر بھی ہورہے ہیں... دیکھیں کیا ہے حقیقت؟)

*"نہ میں سنی ہوں،نہ حنفی،نہ شافعی،نہ مقلد نہ غیر مقلد،میں تو صرف مسلمان ہوں اور مسلمان بن کر جینا چاہتا ہوں"*
کتنا پیارا ہے یہ نعرہ!...اسے سن کر کتنا اچھا لگتا ہے... لیکن کیا کبھی آپ نے اس نعرے پر غور بھی کیا ہے کہ اس نعرے کی مٹھاس میں کتنا زبردست زہر بھرا ہوا ہے؟
ذرا ان نعرہ لگانے والوں سے پوچھو کہ بھائی!آپ صرف مسلمان ہیں سنی،حنفی، مقلد، غیرمقلد نہیں ہیں تو شریعت پر عمل کس طرح کرتے ہیں؟کس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں؟حنفی کی؟ آپ تو حنفی نہیں ہیں!.....شافعی کی؟آپ تو شافعی نہیں ہیں!...آپ تو مسلمان ہیں مسلمانوں کی مسجد میں جائیے ان حنفی شافعی مقلد غیرمقلد کی مسجدوں میں کیوں جاتے ہو؟شریعت کے دوسرے مسائل پر کس طرح عمل کرتے ہو؟خود سے...یا کسی سے پوچھ کر؟...خود سے تو عمل کرنے سے رہے ..اگر پوچھ کر کرتے ہو تو کس سے پوچھتے ہو؟حنفی عالم سے؟ آپ تو حنفی نہیں!...غیرمقلد عالم سے؟آپ تو غیرمقلد نہیں!.....آپ تو مسلمان ہیں،کسی مسلمان عالم سے پوچھیے!
اگر آپ صرف مسلمان ہیں سنی حنفی مقلد غیرمقلد نہیں ہیں تو نماز پڑھنے کے لیے ایک مخصوص مسلک کی مسجد کیوں تلاش کرتے ہیں ... نماز روزے کے مسائل ایک مخصوص مسلک کے عالم سے کیوں پوچھتے ہیں؟؟
اس نعرے کے پیچھے کوئی تو راز ہے.. ایک ایمان والا یہ نعرہ ہرگز نہیں لگاسکتا،یہ نعرہ شیطانی تو ہوسکتا ہے،ایمانی ہرگز نہیں ہوسکتا... دراصل یہ نعرہ لگانے والے یا تو جمعہ جمعہ آٹھ والے ہوتے ہیں یا وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ نعرہ صرف زبان سے لگاتے ہیں مسلک کی بات آتی ہے تو اپنے مسلک کی حمایت میں سب سے پیش پیش رہتے ہیں -
حقیقت یہ ہے کہ یہ پر فریب نعرہ،نعرۂ ضلالت ہے... حدیث میں ہے"من شذ شذ"،یعنی جو جماعت سے کٹ گیا وہ ایمان سے کٹ گیا،اور "اتبعوا السواد الأعظم" جس پر امت کا ایک بڑا طبقہ جما ہوا ہو تم بھی اسی پر جم جاؤ،اگر الگ ہوئے تو ایمان سے کٹ جانے کا اندیشہ ہے... من شذ شذ!
آپﷺ نے یہ ارشاد فرمادیا کہ اس امت کے فرقے بنیں گے تو ضرور بنیں گے؛لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سب کے سب گمراہ ہوں گے،کوئی بھی مسلمان نہیں ہوگا؛بلکہ آپ نے اس کے بعد یہ بھی ارشاد فرمادیا کہ مسلمانوں کی سچی جماعت انہیں فرقوں میں سے کوئی نہ کوئی فرقہ ہوگا،جس کی علامت یہ ہے کہ وہ میرے اور میرے اصحاب کے طریقوں پر عمل پیرا ہوگا-
اب اگر آپ "مسلمانیت"کا نعرہ لگا کر ایک اور فرقہ "فرقۂ مسلمانی" پیدا کردیں تو کیا فرق ہوا آپ "مسلمان" میں اور دوسرے مسلک والوں میں؟؟؟کچھ دنوں میں آپ کی بھی مسجد الگ قرآن الگ حدیث الگ ... کوئی آپ کو ٹوکے گا تو آپ بھی لٹھ لے کر کھڑے ہوجائیں گے!
دین ایک اصول اور دائرۂ عمل کا نام ہے،آپ اس دائرے میں رہ کر ہی نجات پاسکتے ہیں،صرف مسلمانیت کا نعرہ لگا کر نہیں!
یہ درست ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان آپس میں جیسا اختلاف ہورہا ہے ویسا نہیں ہونا چاہیے تھا؛لیکن کیا ہم اپنے گھریلو اختلافات کی وجہ سے اپنا گھر ہی چھوڑ دیں گے؟خواہ مخواہ ایک اور فرقہ پیدا کرنے سے کیا فائدہ؟؟ ہمیں اگر مسلمان رہنا ہے تو امت کی انہیں جماعتوں میں سے آپﷺ اور آپ کے اصحاب کی سنت پر عمل پیرا جماعت کی اتباع کرنی ہوگی-
میں یہ نہیں کہتا کہ آپ سنی بن جائیں،غیرمقلد بن جائیں،حنفی بن جائیں،شافعی بن جائیں،یہ بن جائیں وہ بن جائیں،میں فرقہ بندی کی بالکل تعلیم نہیں دے رہا اور نہ اس تحریر سے میرا مقصد آپسی انتشار کو ہوا دینا ہے... اللہ نے آپ کو عقل دی ہے اس عقل اور قرآن و احادیث کی مدد سے اہل السنہ والجماعہ کو پہچانیں،اور اسلام کے دائرے میں رہ کر ہی مسلمانیت کا نعرہ لگائیں نہ کہ دائرے سے نکل کر!
وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ(118إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (119) هود

*بارہ ربیع الاول...یوم ولادت یا یوم وفات؟؟*



مسلمان جہاں جہاں بسے ہیں ہر سال جب بارہ ربیع الاول کا دن آتا ہے تو وہ عید میلاد النبی مناتے ہیں... اسٹیج لگائے جاتے ہیں لائٹوں سے گلیوں اور گھروں کو سجایا جاتا ہے ...
لوگ اس دن کا ایسے اہتمام کرتے ہیں جیسے یہ سنت ہو جس کے کرنے کی شریعت نے تاکید کی ہو حالانکہ یہ سنت نہیں ہے بلکہ بدعت ہے...اس دن کو منانے والے چاہے جتنی دلیلیں دے دیں لیکن ایک بات صاف طور سے محسوس ہوتی ہے کہ لوگوں پر جہل کا غلبہ ہوگیا ہے اور علم سے کوسوں دور ہوگئے ہیں...
جسے تاریخ کا ذرا بھی علم ہو وہ یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہے کہ آخر لوگ کس بات کی خوشی مناتے ہیں آپﷺ کی ولادت کی یا آپﷺ کی وفات کی؟؟؟
تاریخ کی گہرائی میں جھانکا جائے تو نظر آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت میں تو سخت ترین اختلاف ہوا ہے کوئی دو کوئی آٹھ کوئی نو کوئی دس تو کوئی بارہ ربیع الاول بتاتا ہے لیکن آپ کے یوم وفات میں اکّا دکّا کو چھوڑ کر سارے اس بات پر متفق ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بارہ ربیع الاول کے دن ہوئی ہے...
مشہور تو یہی ہے کہ ولادت بھی بارہ ربیع الاول کو ہوئی ہے لیکن محققین آٹھ ربیع الاول کو یوم ولادت بتانے پر متفق ہیں...
اور ہر مشہور بات سچی ہی ہو یہ ضروری نہیں کبھی کبھی غلط باتیں بھی مشہور ہوجاتی ہیں اور لوگ اسے سچا سمجھنے لگتے ہیں....بہر حال اتنے اختلافات کے بعد قطعی طور سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہی ہوئی تھی جب کہ وفات کے سلسلے میں بارہ ربیع الاول کا دن یقینی ہے ...
اب آپ ہی بتائیے کہ اس دن کیا کرنا چاہیے شک پر عمل کرتے ہوئے جشنِ عید میلاد النبی میں ناچ گاکر شور ہنگامہ کرنا چاہیے یا وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وصیت کی تھی اسے پورا کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا چاہیے؟؟؟؟؟
ان عقل کے اندھوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ عید میلاد النبی اگر ایسی ہی محبوب اور مہتم بالشان عید ہوتی کہ اس کا منانا ہر مسلمان پر فرض ہوتا تو عیدین کی طرح اس عید کے دن میں بھی اختلاف نہ ہوتا ...
بالفرض مان بھی لیا جائے کہ جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے وہی دن آپ کی پیدائش کا بھی ہے تو بتائیے ہمیں خوشی منانا چاہیے یا غم؟؟؟
مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دن جشن کیسے منایا جائے ... ایک ہی دن میں خوشی اور غم دونوں کا منانا یا خوشی کو غم پر ترجیح دے دینا عقل میں کیسے آسکتا ہے؟؟؟
اگر ان کے گھر میں شادی ہو اور اماں یا ابا کا انتقال ہوجائے تو یہ کیا کریں گے؟؟؟
عیدین میں ان کے بچے کا انتقال ہوجائے تو یہ کیا کریں گے؟؟؟
دودھ کا دودھ پانی کا پانی تو اس وقت ہوجائے گا جب بارہ ربیع الاول کے ہی دن ان کا کوئی عزیز فوت ہوجائے ... یقینا نبیﷺ کی محبت کے یہ جھوٹے دعویدار سارا جشن چھوڑ کر اپنے عزیز کی موت پر گھر کو سوگوار بنادیں گے!!!
اس دن کسی عزیز کے فوت ہونے پر ماتم ... اور جس کی وفات سے دنیا کو سب سے بڑا خسارا اٹھانا پڑا اس کے یوم وفات پر جشن؟؟؟؟
جس محبت کے دم پر یہ لوگ جشن عید میلاد النبی مناتے ہیں اسی محبت کا تقاضہ ہے کہ اس خوشی کا بالکل اظہار نہ کیا جائے...
اس عید کی تاریخ میں اور اس کے موجد کے سلسلے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ان اختلافات کے باوجود ایک چیز مشترک نظر آتی ہے کہ اس عید کو ایجاد کرنے میں شیعوں و رافضیوں کا ہاتھ تھا کچھ نے خلافت کے زور پر اور کچھ نے دین کے نام پر اس عید کو پھیلانے کی کوشش کی تھی ... اس کے پیچھے ان کے دو مقصد تھے ایک تو یہ کہ وہ حُبِّ نبیﷺ کے نام پر مسلمانوں کو اپنی طرف مائل بھی کرلیں گے اور آپﷺ کی وفات کے دن خود بھی خوشی مناکر اور مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ وفاتِ نبی پر خوشی میں شریک کر کے اپنے دل کی بھڑاس بھی نکال لیں گے... اعاذنا اللہ منہ
حدیث میں ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: "لاتجعلوا قبری عیدا " عید کہتے ہیں اس چیز کو جو بار بار لوٹ کر آئے ... آپﷺ  کے کہنے کا مطلب تھا کہ تم میری قبر کی زیارت کے لیے کوئی خاص دن متعین نہ کرلینا کہ اسی دن ہر سال خاص طور سے لوٹ لوٹ کر آؤ اور اس دن کو عید بنالو...
ذرا سوچو جو نبی اپنی قبر کو عید بنانے سے منع کر رہا ہے وہ اپنی پیدائش کے دن کو عید بنانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ... ؟
ایسا کام جسے نہ صحابہ نے کیا ہو نہ تابعین نے نہ تبع تابعین نے  اور نہ ان کے بعد سلف صالحین نے ...وہ کام شرعی کیسے ہوسکتا ہے... ؟
کیا مسلمانوں کے کرنے کو بس یہی ایک کام رہ گیا ہے جس سے وہ آپﷺ کے تئیں اپنی محبت  کا اظہار کرسکیں... اصل محبت تو اتباعِ نبی اور ان کے اسوہ کو اپنانے میں ہے ... نہ کہ ان کی باتوں کو ٹھکراکر ان کی نافرمانی کرنے میں ...!
آج کیا کیا نہیں ہورہا ہے جشنِ عید میلاد النبی کے نام پر.... گانا بجانا ... سڑکوں پر ناچنا جلوس نکال کر سڑکوں کو جام کرنا ... بے جا چیزوں اور بے جا جگہوں پر بلاوجہ پیسے اڑانا.... کہیں کہیں پر تو حد ہی ہوگئی ہے... اسٹیج پر آپﷺ کا نام لکھا ہوا ہے ڈی جے بج رہا ہے اور ایک عورت نیم برہنہ اسی اسٹیج پر شہوت انگیز ناچ ناچ رہی ہے...
آج سے بیالیس سال پہلے کا اشتہار دیکھیے:
*ڈرائیوان سینما میں جلسۂ سیرت النبیﷺ:*
*بروز جمعرات 18 اپریل 1974ء 6 بجے شام سے 12 بجے شب اس ماہ مبارک کی با برکت شب جمعرات بتاریخ 18/اپریل آپ جملہ حضرات اور خواتین سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس جلسۂ مبارک کی عظمت و برکات میں شرکت فرماکر داخلِ حسنات ہوں-*
*حج اور زیارتِ مدینہ منورہ کی رنگین فلمیں پیش کی جائیں گی- داخلہ بالکل مفت ہے-"*
(جنگ: مورخہ ۱۵ اپریل ص ⁴ بحوالہ اصلاحی مضامین ص ۳۰ مفتی تقی عثمانی مدظلہ العالی)
آج سے بیالیس سال پہلے یہ حال تھا تو اب تصور کیجیے بعض شہروں میں کیا کیا نہ ہوتا ہوگا... نیٹ چلانے والے گوگل اور یوٹوب پر بارہ ربیع الاول کے دن ایسے جلسوں اور سینما گاہوں کا حال دیکھ کر بڑھتی بے دینی کا احساس کرسکتے ہیں!
مسلمانوں ! اب یہ کسی فرقہ کا مسئلہ نہیں رہا آج جس طرح سے جشن عید میلاد النبی میں بے حیائی کر کے دین کو بدنام اور اس کے وقار کو گھٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسی حالت میں تمام مسلمانوں کی ذمہ یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس طرح کے حیا سوز جلسوں کے خلاف کھڑے ہوں اور نبیﷺ کے تئیں اپنی محبت کا پورا پورا ثبوت دیں ... اور یاد رکھیں کے جو دین ناچ گانے اور بے حیائی کو ختم کرنے کے لیے آیا ہو وہ خود ان چیزوں کی اجازت کیسے دے سکتا ہے...؟؟ اگر کوئی ان چیزوں کو کرتا ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تو ہوسکتا ہے لیکن مُحب نہیں ... اور جو نبی کے دشمنوں کا ساتھ دے گا وہ بھی نبی کا دشمن  ہوجائے گا اور جس نے نبی سے دشمنی کی اللہ اس کو کہیں کا نہیں چھوڑے گا...
اب بھی موقعہ ہے سوچنے کا... سمجھنے کا.... سنبھلنے کا...سنبھل جاؤ مسلمانو! سنبھل جاؤ!

عید کی حقیقی خوشی

~*یوم العید:مصطفی لطفی المنفلوطی*~
 
_*ترجمانی:ابو حمران*_

*عید کی حقیقی خوشی*

عید کی چاند رات میں ایک عورت کھلونوں کی دکان کے سامنے کھڑی تھی...دکان پہ کافی بھیڑ تھی...سب اپنے بچوں کو عید میں اچھا کھلونا پیش کرنا چاہتے تھے...یہ عورت بھی اپنے بچے کی ضد پر گھر سے کھلونا لینے نکل کھڑی ہوئی تھی...
اس کی نظر سنگ مرمر سے بنے ایک کھلونے پر پڑی....جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دوڑ گئی... *اس لیے نہیں کہ کھلونا بہت شاندار تھا؛بلکہ وہ اس کھلونے کو اپنے لختِ جگر کی نظر سے دیکھ رہی تھی* جسے وہ گھر پر یہ کہہ کر چھوڑ آئی تھی کہ اس کے لیے کھلونا لے کر آئے گی...اس نے دکاندار سے کھلونے کا دام پوچھا تو بہت مہنگا بتایا جس کی ادائیگی عورت کے بس سے باہر تھی...اس نے بھاؤ کم کرنے کے لیے کہا تو دکاندار نے انکار کردیا...عورت کو بڑی مایوسی ہوئی...کھلونا خریدنے کے اس کے پاس پیسے نہیں تھے...اور بنا کھلونے کے وہ گھر لوٹنا نہیں چاہتی تھی...چنانچہ مجبورا وہ، ایسانقدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی جسے ایسے وقت میں صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس کے سینے میں ماں جیسا دل دھڑک رہا ہو.
اس نے چپکے سے کھلونے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور احتیاط سے اپنی اوڑھنی میں چھپا لیا... اور سیدھے اپنے گھر کے رستے کو ہولی..
ایک ہی وقت میں اس کے دل میں دو مختلف دھڑکنوں نے ڈیرا ڈال دیا تھا...ایک دھڑکن اپنی اس چوری کے انجام کی تھی...اور دوسری اس خوشی کی تھی جو تھوڑی ہی دیر بعد یہ کھلونا اپنے بچے کو دے کر اسے حاصل ہونے والی تھی..
ادھر دکان کا مالک جو اپنی دکان کی ہر چیز پر گہری نظر رکھتا تھا اس سے عورت کی یہ حرکت چھپی نہ رہ سکی...جیسے ہی وہ دکان سے ہٹی اس نے چھپ کر اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا...ایک گھر میں داخل ہوتے دیکھ جب اسے پتہ چل گیا کہ یہی عورت کا گھر ہے تو لوٹ آیا اور جاکر پولیس چوکی میں اس چوری کی شکایت درج کرائی اور دو پولیس والوں کو ساتھ لے کر اس کے گھر پہونچا...جب وہ گھر میں گھسا تو دیکھا کہ کھلونا بچے کے ہاتھ میں ہے اور اپنی ماں کے سامنے بیٹھا اس کھلونے سے کھیل رہا ہے....اور ماں....وہ اپنے بچے کو پیار بھری نظروں سے کھیلتے دیکھ رہی ہے اور اس کی مسکراہٹوں میں مگن ہے...
کھلونے والے نے عورت کی طرف اشارہ کیا اور دونوں پولیس والے اس کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈالنے لگے...اور جب بچے کے ہاتھ سے کھلونا چھینا تو وہ زار وقطار رونے لگا... *اس وجہ سے نہیں کہ اس کا پیارا کھلونا اس سے چھین لیا گیا تھا... بلکہ وہ اپنی ماں کو دیکھ کر رورہا تھا* جس کو دو آدمیوں نے پکڑ رکھا تھا اور وہ ان کے درمیان کھڑی کانپ رہی تھی...بچہ دکان مالک کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہوگیا اور رو رو کر کھلونے والے سے کہنے لگا....میری ماں کو چھوڑ دو...میری ماں کو چھوڑ دو...
کھلونے والا مبہوت ہوکر رہ گیا...سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے...اسی سوچ میں تھا کہ فجر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی...وہ اذان جس کے بعد گھروں میں عید کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں...
اس کے ضمیر نے اسے کچوکے لگانا شروع کردیا کہ آج کے دن لوگ خوشیاں بانٹتے ہیں.. اور تُو ایک حقیر کھلونے کے لیے دو معصوم جانوں کی خوشیاں چھین لینا چاہتا ہے!؟
وہ پولیس والوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا:"معافی چاہتا ہوں... میں نے غلط فہمی میں ان خاتون کو چور سمجھ لیا تھا... اس قسم کا کھلونا میری دکان پر نہیں بکتا ہے...دور سے دیکھ کر میں غلط سمجھ بیٹھا تھا"...
یہ سن کر پولیس والے بڑبڑاتے ہوئے لوٹ گئے...اور دکان مالک بچے کی طرف بڑھا اور اس کے ہاتھ میں کھلونا پکڑا کر کہا:"مجھے معاف کرنا بیٹا! یہ تمہارا ہی کھلونا ہے"..
پھر وہ عورت سے مخاطب ہوکر بولا: "بہن میں نے تمہارا بہت دل دکھایا ہے...مجھے یقین ہے کہ تم عید کے دن کی ہی لاج رکھ کر میری زیادتی کو معاف کردوگی"...!؟
عورت کی پیشانی چوری کے سبب خجالت وشرمندگی سے عرق آلود تھی...اس نے بس اتنا کہا کہ "میں اپنے فعل پر شرمندہ ہوں...ممتا سے مجبور تھی"!
کھلونے والے نے اپنا پرس نکالا اور اس میں سے روپے نکال کر عورت کے منع کرنے کے باوجود یہ کہہ کر کہ ایک بھائی کی طرف سے عیدی ہے اس کے ہاتھوں پر رکھا اور یہ کہہ کر نکلا چلا گیا کہ عید کی سوئیں پینے ضرور آؤں گا...

_*☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆*_

_عید کی چاند رات میں آسمان پر دو ستارے نمودار ہوتے ہیں.. ایک خوش بختی کا ستارا اور ایک بدبختی کا.... پہلا تو ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جنہوں نے اچھے اچھے پکوان کا انتظام کر رکھا ہے.. اپنے اور بچوں کے لیے نئے نئے کپڑے سلا رکھے ہیں...گھر کو سجا رکھا ہے... مہمانوں کو بلا رکھا ہے....اور رات کو نرم نرم بستر پر لیٹ کر عید کے دن کے خوبصورت خواب دیکھتے ہیں..._
_اور دوسرا ستارا ان غریبوں اور مسکینوں کے لیے ہوتا ہے جو رات میں اپنے کھردرے بستر پر لیٹ کر آہیں بھرتے ہیں... جن کے بچوں کی نگاہیں سراپا سوال بنیں ہوتی ہیں کہ ہمارے لیے نئے نئے کپڑے کیوں نہیں سلوائے گئے جسے پہن کر ہم اپنے دوستوں کے ساتھ عید میں کھیل سکیں...ہمیں کھلونے کیوں نہیں خریدے گئے...ہمارے نئے جوتے کہاں ہیں... اور وہ اپنے آنسؤوں کو ضبط کرکے انہیں جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ نہیں دے پاتے ہیں..._
_کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو خوش بخت لوگ ہیں وہ ان غریبوں پر کچھ احسان کرسکیں؟؟کیا ہر ایک "کھلونے والا "نہیں بن سکتا کہ اللہ نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے تھوڑا ساہی دے کر انسانیت پر احسان کردیں..؟!_
_ایسا انسان جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اور سینے میں انسانیت کے تئیں دردمند دل بھی ہے...وہ عید کی نماز کو جاتے ہوئے یا نماز پڑھ کر لوٹتے ہوئے...یا کسی اور موقعہ پر کسی ایسے بچے کو دیکھے جو پرانے کپڑے پہن کر گھر سے کسی ضروری کام سے نکلا ہے... آنکھیں آبدیدہ ہیں...دیواروں اور درختوں کی آڑ لے کر چھپتا چھپاتا جارہا ہے کہ کہیں دوستوں کی نظر نہ اس پر پڑجائے اور اس کی غربت اور فقر تماشہ بن کر رہ جائے...ایسے بچے کو دیکھ کر یقینا وہ شخص شفقت و محبت میں اسے گلے سے لگا لے گا اور اس کے ساتھ "کھلونے والے"کا سا معاملہ کرے گا...کیونکہ وہ جانتا ہے کہ *انسان کو چاہے جتنی خوشیاں میسر آجائیں وہ اس خوشی کے سامنے ہیچ ہیں جو کسی درد مند کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو پوچھنے سے حاصل ہوتی ہے.*..!_

_اللہ کے بندو!یہ غریب مسکین اپنا پورا سال تو تنگ دستی اور فاقہ کشی میں گزار دیتے ہیں..کیا انہیں اتنا بھی حق نہیں کہ کم ازکم سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ ہم انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرسکیں؟جبکہ یہی عید کی حقیقی خوشی ہے!!_
_ﺑﮩﺖ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﻋﯿﺪ ﻣﻨﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﭘﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﭙﮍﺍ ﺳﻼﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﺍﮨﻞِ ﺣﯿﺜﯿﺖ چمکیں گے ﺍﻭﺭ چہکیں گے،ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺠﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﻓﻄﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺯﮐﻮۃ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﻨﺪﮬﯽ ﮨﮯ،ﻣﺴﺘﺤﻖ ﮨﻮﮞ ﺍس کا یہ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ بتاﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﺭﻭﻧق ﮨﻮﮔﯽ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ،ﺍﮮ ﺩﻭﺳﺖ ! ﺗﻮ ﮨﯽ ﺑﺘﺎ یہ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺑِﺘﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟_

_ہماری امداد کے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے حالات سے ناواقف لوگ سمجھتے ہیں کہ مالدار ہوں گے... ایسے لوگوں کو ڈھونا پڑتا ہے... خاص علامتوں سے ہی وہ پہچان میں آتے ہیں...لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مانگا نہیں کرتے.._
_"یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ°تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ°لَایَسْاَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا°"_

قیمتی آنسو

عاشقوں کے آنسوجمع کرو!۔۔۔وہ ہیروں سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں؛مگر آنسو جمع کرنے سے پہلے اچھی طرح اطمینان کرلو کہ کہیں عاشق نزلے میں تو مبتلا نہیں ہے!!

حلال ہے مگر اتنا حلال تھوڑی ہے


حلال ہے مگر اتنا حلال تھوڑی ہے
یہ مرغا اکَّھا ہی کھانا کمال تھوڑی ہے

ہزاروں اور بھی آئیں ہیں پیارے!دعوت میں
ہمیں تمہارا ہی تنہا خیال تھوڑی ہے

مزا تو جب ہے کہ تم کھا کے just اٹھ جاؤ
ہمیشہ بیٹھے ہی رہنا کمال تھوڑی ہے

لگانی پڑتی ہے لائن یہاں پہ کھانے کو
بھکاریوں سی یہ دعوت وبال تھوڑی ہے!

کھلا ہی چھوڑ دیا لڑکیوں کو لڑکوں میں
زمانہ تُھو کرے ان کو ملال تھوڑی ہے !

ذرا سنبھال کے لپکو تم اپنا موبائل
اجی مسکال ہے،کوئی مس کی کال تھوڑی ہے!

غرور خاک میں مل جائے گا حسینوں کا
فنا ہے سب کو ،کوئی لازوال تھوڑی ہے

"ہماری بچی کا رشتہ بہت ہی مہنگا ہے"
فقط یہ آپ کے گھر کا ہی حال تھوڑی ہے

کوئی یہ کہہ دے مدارس کے ذمہ داروں سے
"زکوۃ ہے کوئی ابّا کا مال تھوڑی ہے"!

مدَرِّسو سنو مارو نہ اتنا بچوں کو
نبی کے مہماں پہ قمچی حلال تھوڑی ہیں !

ہر ایک دنگے میں آتا ہے نام مسلم کا
"عروج" کہتے ہیں اس کو، زوال تھوڑی ہے!

نصابِ تعلیم اور نظام تعلیم

نصابِ تعلیم سے زیادہ آج نظامِ تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے... نصاب کتنا ہی اچھا کیوں نہ متعین کردیں... اگر نظام صحیح نہیں ہے تو کوئی فائدہ نہیں... آج ایسے مدرسوں کی کمی نہیں ہے جہاں نصاب میں تبدیلی نہ کی گئی ہو... لیکن کتنے مدرسے اس میں کامیاب ہوئے؟؟
نظام بہتر ہو اور اساتذہ بھی صحیح معنوں میں"اساتذہ"ہوں تو خواہ قدیم نصاب ہو یا جدید بہر حال طلبہ جدید حالات کو سمجھنے لائق پیدا ہوں گے... اور اگر نظام تعلیم میں خلل ہو... اساتذہ بھی تنگ ذہن ہوں... پھر چاہے جتنا آپ نصاب بدل لیں... طلبہ وہاں سے جامد ذہن ہی لے کر نکلیں گے...
مولانا ابو الحسن علی قاسمی ندوی رحمہ اللہ "پاجا سراغِ زندگی کے صفحہ نمبر 168پر فرماتے ہیں کہ:
"......لیکن میں آپ سے کہتا ہوں کہ زیادہ مسئلہ نصاب کا بھی نہیں،زیادہ مسئلہ محنت کاہے،اور اساتذہ کے پڑھانےکا ہے،قدیم نصاب سے وہ لوگ تیار ہوئےجو آج جدید نصاب سے تیار نہیں ہوتے ہیں ،کیابات ہے؟؟؟حالانکہ یقینی بات ہے کہ قدیم نصاب سے جدید نصاب کی بعض چیزیں یقیناً بہتر ہیں،مثلا قدیم نصاب پڑھ کر فلاں فلاں پائے کے عالم نکلے،اور اب جب کہ نثر کی اچھی اچھی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں،آج ایسے لوگ نہیں پیدا ہورہے ہیں ،اگر نصاب ضامن ہوتا تو اب پیدا ہونا چاہیے"

میری جان...ہندوستان

سارے جہاں سے اچھا ، ہندوستاں ہمارا
ڈاکے پڑے ہیں اس پہ ، اتنے ...ہوا کباڑا 

کرتے ہیں قید ہم کو ، القاعدہ کا کہہ کے
حد میں رہو کمینو ، حق چھینو نہ ہمارا

مذہب ہے کیا سکھاتا ، مطلب نہیں ہے اس سے
تم تو وہی کروگے ، دل جو کہے تمہارا

اپنے عمل کے پھل ہیں ، ہونا تھا ایک دن یہ
جو چائے بیچتا تھا ، ہے بادشاہ ہمارا

"دنگا" کسے ہیں کہتے ، واقف نہیں مسلماں
خود ہی فساد کرکے ، نہ نام لو ہمارا

ہم کو مٹانے والے ، خود مٹ گئے جہاں سے
ہر دور میں رہا ہے ، اک دبدبہ ہمارا

بیدار ہوگئے تو ، رستہ نہیں ملے گا
اس واسطے ہے دشمن ، سارا جہاں ہمارا

انگریز کو بھگایا ہم نے ہی جان دے کر 
اس ملک کی زمین میں شامل ہے خوں ہمارا 

چھوڑیں گے ہم نہ ہرگز اس ملک کو کبھی بھی 
یہ ملک ہے خدا کا اور ہے خدا ہمارا 

پربت وہ سب سے اونچا ، ہمسایہ آسماں کا
"تھا" سنتری ہمارا ، "تھا" پاسباں ہمارا

یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
خود کو بچاؤ للہ ، مٹنے نہ دو خدارا

عزت سے کھیلتے ہیں ، اس کی ہزاروں نیتا
گلشن ہے جن کے دم سے دوزخ نما ہمارا

کیسےکہوں میں اسکو،"سارے جہاں سے اچھا"
گلشن اجڑ گیا ہے ، بلبل ہیں بے سہارا

اقبال نے کہا پھر"غیرت" سے خواب میں یہ
مودی کے دور میں ہے ، کچھ بھی نہیں ہمارا

پھر بھی کہو یہ جبراً،سارے جہاں سے اچھا
کچھ تھوڑا ہے ہمارا ، باقی کا سب تمہارا

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

تعزیہ داری و ماتم کی حقیقت

ومن أضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اللہ۔۔۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کی شکل میں ایک دستور الحیاۃ عطا فرمایا ہے۔۔راہ حق پر چلنے اور ثابت قدم رہنے کے لیے اس دستور پر عمل کرناہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔۔جس نے اس دستور الحیاۃ سے ہٹ کر کوئی دوسرا دستور اپنایا وہ گمراہ ہوا۔۔
دنیا میں مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں ان میں دوسرے اصول و قواعد کو لے کر چاہے جتنا اختلاف ہوا ہو لیکن ایک اصول میں سب کو متفق ہونا پڑے گا وہ اصول ہے’’قرآن وحدیث یعنی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر عمل اور نافرمانی سے گریز‘‘جو بھی اس اصول کی حد کو پھلانگے گا وہ اپنے آپ کو کتنا ہی مسلمان ثابت کرے ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہوگا۔۔۔
اللہ تعالی نے اس امت کو ’’امت وسط‘‘یعنی اعتدال والی امت سے موسوم کیا ہے(وکذلک جعلناکم أمۃ وسطا)کیونکہ اللہ تعالی کو اعتدال پسند ہے اور وہ اپنے دین میں اعتدال ہی دیکھنا چاہتا ہے۔۔
یہ محرم کا مہینہ ہے ۔۔۔اس مہینے میں جتنی بھی خرافات ہوتی ہیں وہ نہ تو قرآن وحدیث سے ثابت ہیں اور نہ اکابرین امت نے ایسا کیا ہے۔۔۔جو دین بانسری بجانے سے بھی منع کرتا ہے وہ ڈھول تاشے، گانے بجانے، تعزیہ، سینہ کوبی، علم اور سبیل وغیرہ میں ہنگامہ کرکے سارے شہر کو سر پہ اٹھا لینے کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟۔۔۔
علما نے لکھا ہے کہ یہ سارے امور بدعت و ناجائز ہیں اور روافض کا شعار ہیں اس لیے ان میں شرکت ناجائز ہے۔۔۔بعض نے تو شرک کا خطرہ بھی بتایا ہے۔۔
اس لیے مسلمانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی جگہوں پر جہاں تعزیہ کا جلوس نکلتا ہو خود بھی نہ جائیں اور اپنے بچوں، اعزہ اقارب اور دوستوں کو بھی ایسی جگہ جانے اور ان میں شرکت کرنے کا گناہ بتاکر روکیں۔۔ورنہ خطرہ ہے کہ حدیث’’من کثر سواد قوم فھو منھم ‘‘جس نے کسی قوم کی (تقریب یا رسم ورواج میں شریک ہوکر اس کی)اکثریت میں اضافہ کیا تو وہ انہیں میں شمار ہوگا۔کی رُو سے شرکت کرنے والے فاسق وفاجر نہ لکھ دیے جائیں ۔۔۔اللہ بچائے!
شریعت نے کسی کی وفات پر نوحہ کرنے اور گریبان پھاڑ کر رونے چلانے سے منع کیا ہے۔۔خود سوچیئے کہ اگر ماتم کرنا جائز ہوتا تو یہ سلسلہ نبی ﷺ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے فورا بعد سے شروع ہوجانا چاہیے تھا لیکن کسی بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ آپﷺ کے بعد کسی صحابی نے ماتم کیا ہو۔۔
احادیث میں ماتم ونوحہ کرنے پر بڑی وعیدیں آئیں ہیں:
بخاری میں ہے’’لیس منا من لطم الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاہلیہ‘‘جس نے منہ پیٹا ،گریبان چاک کیااور زمانہءجاہلیت جیسے بین کیے وہ ہم میں سے نہیں۔
’’شریعت اسلام میں حادثہء کربلا کی یادگار قائم رہنے کی بابت کوئی ہدایت موجود نہیں اور نہ حضرات صحابہ وتابعین نے واقعہء کربلا کی بنا پر عاشورا میں کوئی تقریب کسی قسم کی قائم کی۔۔رفتہ رفتہ عہد رسالت سے جتنی دوری ہوتی گئی جہاں اور بہت سی رسوم،بیرونی اثرات کی بنا پر مسلمانوں میں شامل ہوگئیں وہیں محرم کے نام سے بھی ایک خاص تقریب کا اضافہ ہوگیا ۔۔۔احادیث نبوی،آثارصحابہ،اقوال سلف صالحین کہیں سے اس رواج کا پتہ تین ساڑھے تین سو سال تک کے زمانے میں نہیں چلتا۔۔۔البتہ یہ واقعہ تاریخوں میں درج ہے کہ ایک عباسی خلیفہ کے ایک مشہور ذی اثر شیعی وزیر معزالدولہ نے سنہ۳۵۲ھ میں شہادت امام حسین کی یادگار منانے کے لیے یوم عاشورا کو مقرر کردیا۔۔اسی وزیر کے حکم سے اسی سنہ میں جامع مسجد بغداد پر صحابہء کرام پر (نعوذ باللہ)لعنت لکھی گئی۔۔۔۔لہذا اہل السنۃ مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دسویں محرم کو بطور ماتم قرار دینا نہ شریعت میں اس کا کوئی حکم ہے اور نہ ان کے ہاں کے کسی بزرگ کے حکم کی تعمیل ہے؛ بلکہ یہ ایجاد ایک شیعی وزیر سلطنت کے دماغ کی ہے۔۔
اودھ میں شیعی سلطنت چونکہ عرصے تک قائم رہی اس لیے قدرتا یہاں کے مسلمانوں کے تمدن ومعاشرت میں شیعیت کے اجزا بکثرت شامل ہوئے اور تعزیہ داری کا رواج بھی یہاں بکثرت پھیل گیا۔۔۔کوئی دستور جب پرانا ہوجاتا ہے تو عوام اسے اپنے مذہب واعتقاد کا جزء سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔یہی صورت رسم تعزیہ داری سے متعلق بھی ہے۔۔۔جن آبادیوں میں صحیح مذہبی تعلیم نہیں پھیلی ہے اور لوگ شریعت اسلام کی صحیح تعلیم سے ناواقف ہیں وہاں قدرتا یہ رواج سختی کے ساتھ پھیلا ہوا ہے‘‘۔بحوالہ رسومات محرم
مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی اپنی کتاب تاریخ اسلام جلد سوم صفحہ 929 پر لکھتے ہیں کہ:
"سنہ ٣٥٢ ہجری کے شروع میں ابن بویہ (معزالدولہ)نے حکم دیا کہ ١٠ محرم کو امام حسین کی شہادت کے غم میں تمام دوکانیں بند کردی جائیں بیع وشرابالکل موقوف رہے ۔شہرودیہات کے تمام لوگ ماتمی لباس پہنیں اور اعلانیہ نوحہ کریں عورتیں اپنے بال کھول کر ،چہروں کو سیاہ کئے ہوئے ،کپڑوں کو پھاڑے ہوئے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیہ پڑھتی ہوئی ،منہ نوچتی اور سینہ کوبی کرتی ہوئی نکلیں ۔شیعوں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی مگر اہل سنت دم بخود اور خاموش رہے کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی ۔آئندہ سال ٣٥٣ہجری میں پھر اسی حکم کا اعادہ کیا گیا اور سنیوں میں فساد برپا ہوا۔بہت بڑی خون ریزی ہوئی اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیر عمل لانا شروع کر دیا اور آج تک اسی کا رواج ہندوستان میں اکثر سنی لوگ بھی تعزیئے بناتے ہیں"۔تاریخ اسلام
ان تاریخی حقائق پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ تعزیہ داری کی بنیاد حُبِّ حسین نہیں بلکہ بغض صحابہ ہے... ان تعزیوں میں جو قصیدے پڑھے جاتے ہیں وہ خاص طور سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پر تبرّے اور ان کی ہجو پر مشتمل ہوتے ہیں... اسی کے سدباب کے لیے مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی اور ان کے رفقا نے مدح صحابہ جلوس کا آغاز کیا تھا... جو آج بھی حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی دامت برکاتھم کی نگرانی میں جاری ہے تاکہ اہل السنہ مسلمانوں کو ایسی مجلسوں میں جانے سے روکا جاسکے اور ان کے دلوں میں صحابہ کی محبت کو باقی رکھا جاسکے... یہ جلوس چونکہ بدعت کا مقابلہ کرنے کے لیے اور مسلمانوں کو گناہ سے اور ان کے عقائد کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے نکالا جاتا ہے اس لیے یہ بدعت نہیں ہوگا... یہ بھی باطل سے مقابلہ کرنے کی ایک صورت ہے!