مولانا عمار خان ناصر نے فیس بک پر ایک سوال پوچھا ہے وہ سوال اور اس کا جو جواب میں نے دیا ہے وہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں:
*سوال:*
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں یہودیوں کو فرعون سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کی خوشی میں عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ ہم موسیٰ پر ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو بھی عاشورا کا روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ یہ بنیادی طور پر نہ تو ’’تشبہ بالیہود’’ کے پہلو سے تھا اور نہ کوئی ’’دن منانے’’ کے پہلو سے۔ مقصد ایک تو یہود کی تالیف قلب تھا اور دوسرے یہ جتلانا کہ مسلمان سارے انبیاء کو اپنا سمجھتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا ولادت مسیح علیہ السلام کے موقع پر بھی مسلمان شرعی حدود میں رہتے ہوئے ایسا کوئی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں جس سے اسلام کا یہ مزاج اور پیغام دنیا کے سامنے آ سکے؟
--------------------
*جواب:*
میں نے بہت غور کیا ..مجھے تو کوئی طریقہ نظر نہیں آیا ...
جو بھی طریقہ اختیار کریں گے وہ یا تو امورِ مذہبی سے ہوگا یا امورِ دنیوی سے... اگر امورِ مذہبی سے ہے تو اس کی نظیر ہمارے اسلام میں موجود ہوگی یا نہیں اگر موجود ہے تو سابقہ مذاہب کی جتنی باتوں کو اسلام میں برقرار رکھنا تھا اسے نبیﷺ کے واسطے سے باقی رکھ دیا گیا اور جن سے منع کرنا تھا ان سے منع کردیا گیا اب ہم اپنی طرف سے اسلام کے مذہبی امور میں کسی طرح کی کوئی کمی زیادتی نہیں کرسکتے ...
اور اگر اس مذہبی امر کی نظیر ہمارے دین میں موجود نہیں تو اسلام ہمیں دوسروں کے مذہبی طریقے کو اپنانے کی بالکل اجازت نہیں دیتا خاص طور سے جب کہ اس کی نظیر بھی موجود نہ ہو...
اور اگر اس طریقے کا دنیوی امور سے تعلق ہے تو ہم دیکھیں گے اس کا ہمارے مذہب پر کتنا اثر پڑتا ہے؟ ... اگر اس طریقے کو اپنانے سے ہمارے دین و مذہب پر آنچ آئے ... یا یہ احتمال ہو کہ ابھی تو ہم یہ طریقہ اخوتِ باہمی کے جذبے سے اپنا رہے ہیں لیکن ہماری آئیندہ کی نسل اسے مذہبی شعار سمجھ کر منایا کرے گی تو یہ بھی ناجائز ہوگا ... اور خوب سمجھ لو کہ اکثر بدعات کو ایسی ہی سوچوں نے جنم دیا ہے.
اور اگر مذہب پر کوئی آنچ نہ آئے اور دینِ اسلام میں اس رسم کے گھس جانے کا خطرہ نہ ہو اور اس طریقے کی قرآن و حدیث سے تائید بھی ہوجائے تو جس کا جی چاہے اس طریقے پر عمل کرے اور جس کا نہ چاہے نہ عمل کرے...
نیز جس حدیث کو سامنے رکھ کر یہ سوال کیا گیا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب آپ نے مسلمانوں کو عاشورہ کے روزے کا حکم دیا تو یہ بھی فرمایا کہ اس کے ساتھ آگے یا پیچھے ایک روزہ اور رکھ لینا تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہوجائے....
لہذا اس حدیث سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ہم ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے موقعہ پر جو بھی طریقہ اپنائیں وہ ایسا ہونا چاہیے جو کلیتاً عیسائیوں سے مشابہت نہ رکھتا ہو....
اگر حدیث پر عمل کرنا ہے تو کیوں نہ پورے طریقے سے عمل کیا جائے؟؟؟؟
مولانا اشرف علی تھانوی رح فرماتے ہیں:
"آج کل یہ بے ہودہ رسم نکلی ہے کہ مسلمان کفار کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں اور عید بقر عید کے موقع پر انہیں شرک شریک کرتے ہیں.. یہ تو وہی قصہ ہوگیا ہے جیسا کہ مشرکوں نے آپﷺ سے کہاتھا کہ:"اے محمد!ہم اور آپ صلح کرلیں...ایک سال آپ ہمارے دین کو اختیارکرلیں اور دوسرے سال ہم آپ کےدین کو اختیار کرلیں گے"
اسی وقت سورۂ "کافرون" نازل ہوئی یعنی نہ میں تمہارا دین اختیار کروں گا اور نہ تم میرا دین قبول کروگے... تمہیں تمہارا دین مبارک مجھے میرا میرا دین...لہذا کافروں کے میلوں اور تہواروں سے تو بالکل علیحدہ رہنا چاہیے .ہندوستان میں چونکہ سبھی مذاہب والے ایک جگہ رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپس میں لڑیں نہیں باقی مسلمانوں کو ان کےمیلوں ٹھیلوں اور تہواروں میں شرکت کرنے کو بالکل بند کردینا چاہیے"!
( اشرف التفاسیر جلد چہارم ص ۳۵۱)
0 comments:
Post a Comment