*بارہ ربیع الاول...یوم ولادت یا یوم وفات؟؟*



مسلمان جہاں جہاں بسے ہیں ہر سال جب بارہ ربیع الاول کا دن آتا ہے تو وہ عید میلاد النبی مناتے ہیں... اسٹیج لگائے جاتے ہیں لائٹوں سے گلیوں اور گھروں کو سجایا جاتا ہے ...
لوگ اس دن کا ایسے اہتمام کرتے ہیں جیسے یہ سنت ہو جس کے کرنے کی شریعت نے تاکید کی ہو حالانکہ یہ سنت نہیں ہے بلکہ بدعت ہے...اس دن کو منانے والے چاہے جتنی دلیلیں دے دیں لیکن ایک بات صاف طور سے محسوس ہوتی ہے کہ لوگوں پر جہل کا غلبہ ہوگیا ہے اور علم سے کوسوں دور ہوگئے ہیں...
جسے تاریخ کا ذرا بھی علم ہو وہ یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہے کہ آخر لوگ کس بات کی خوشی مناتے ہیں آپﷺ کی ولادت کی یا آپﷺ کی وفات کی؟؟؟
تاریخ کی گہرائی میں جھانکا جائے تو نظر آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت میں تو سخت ترین اختلاف ہوا ہے کوئی دو کوئی آٹھ کوئی نو کوئی دس تو کوئی بارہ ربیع الاول بتاتا ہے لیکن آپ کے یوم وفات میں اکّا دکّا کو چھوڑ کر سارے اس بات پر متفق ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بارہ ربیع الاول کے دن ہوئی ہے...
مشہور تو یہی ہے کہ ولادت بھی بارہ ربیع الاول کو ہوئی ہے لیکن محققین آٹھ ربیع الاول کو یوم ولادت بتانے پر متفق ہیں...
اور ہر مشہور بات سچی ہی ہو یہ ضروری نہیں کبھی کبھی غلط باتیں بھی مشہور ہوجاتی ہیں اور لوگ اسے سچا سمجھنے لگتے ہیں....بہر حال اتنے اختلافات کے بعد قطعی طور سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہی ہوئی تھی جب کہ وفات کے سلسلے میں بارہ ربیع الاول کا دن یقینی ہے ...
اب آپ ہی بتائیے کہ اس دن کیا کرنا چاہیے شک پر عمل کرتے ہوئے جشنِ عید میلاد النبی میں ناچ گاکر شور ہنگامہ کرنا چاہیے یا وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وصیت کی تھی اسے پورا کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا چاہیے؟؟؟؟؟
ان عقل کے اندھوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ عید میلاد النبی اگر ایسی ہی محبوب اور مہتم بالشان عید ہوتی کہ اس کا منانا ہر مسلمان پر فرض ہوتا تو عیدین کی طرح اس عید کے دن میں بھی اختلاف نہ ہوتا ...
بالفرض مان بھی لیا جائے کہ جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے وہی دن آپ کی پیدائش کا بھی ہے تو بتائیے ہمیں خوشی منانا چاہیے یا غم؟؟؟
مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دن جشن کیسے منایا جائے ... ایک ہی دن میں خوشی اور غم دونوں کا منانا یا خوشی کو غم پر ترجیح دے دینا عقل میں کیسے آسکتا ہے؟؟؟
اگر ان کے گھر میں شادی ہو اور اماں یا ابا کا انتقال ہوجائے تو یہ کیا کریں گے؟؟؟
عیدین میں ان کے بچے کا انتقال ہوجائے تو یہ کیا کریں گے؟؟؟
دودھ کا دودھ پانی کا پانی تو اس وقت ہوجائے گا جب بارہ ربیع الاول کے ہی دن ان کا کوئی عزیز فوت ہوجائے ... یقینا نبیﷺ کی محبت کے یہ جھوٹے دعویدار سارا جشن چھوڑ کر اپنے عزیز کی موت پر گھر کو سوگوار بنادیں گے!!!
اس دن کسی عزیز کے فوت ہونے پر ماتم ... اور جس کی وفات سے دنیا کو سب سے بڑا خسارا اٹھانا پڑا اس کے یوم وفات پر جشن؟؟؟؟
جس محبت کے دم پر یہ لوگ جشن عید میلاد النبی مناتے ہیں اسی محبت کا تقاضہ ہے کہ اس خوشی کا بالکل اظہار نہ کیا جائے...
اس عید کی تاریخ میں اور اس کے موجد کے سلسلے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ان اختلافات کے باوجود ایک چیز مشترک نظر آتی ہے کہ اس عید کو ایجاد کرنے میں شیعوں و رافضیوں کا ہاتھ تھا کچھ نے خلافت کے زور پر اور کچھ نے دین کے نام پر اس عید کو پھیلانے کی کوشش کی تھی ... اس کے پیچھے ان کے دو مقصد تھے ایک تو یہ کہ وہ حُبِّ نبیﷺ کے نام پر مسلمانوں کو اپنی طرف مائل بھی کرلیں گے اور آپﷺ کی وفات کے دن خود بھی خوشی مناکر اور مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ وفاتِ نبی پر خوشی میں شریک کر کے اپنے دل کی بھڑاس بھی نکال لیں گے... اعاذنا اللہ منہ
حدیث میں ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: "لاتجعلوا قبری عیدا " عید کہتے ہیں اس چیز کو جو بار بار لوٹ کر آئے ... آپﷺ  کے کہنے کا مطلب تھا کہ تم میری قبر کی زیارت کے لیے کوئی خاص دن متعین نہ کرلینا کہ اسی دن ہر سال خاص طور سے لوٹ لوٹ کر آؤ اور اس دن کو عید بنالو...
ذرا سوچو جو نبی اپنی قبر کو عید بنانے سے منع کر رہا ہے وہ اپنی پیدائش کے دن کو عید بنانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ... ؟
ایسا کام جسے نہ صحابہ نے کیا ہو نہ تابعین نے نہ تبع تابعین نے  اور نہ ان کے بعد سلف صالحین نے ...وہ کام شرعی کیسے ہوسکتا ہے... ؟
کیا مسلمانوں کے کرنے کو بس یہی ایک کام رہ گیا ہے جس سے وہ آپﷺ کے تئیں اپنی محبت  کا اظہار کرسکیں... اصل محبت تو اتباعِ نبی اور ان کے اسوہ کو اپنانے میں ہے ... نہ کہ ان کی باتوں کو ٹھکراکر ان کی نافرمانی کرنے میں ...!
آج کیا کیا نہیں ہورہا ہے جشنِ عید میلاد النبی کے نام پر.... گانا بجانا ... سڑکوں پر ناچنا جلوس نکال کر سڑکوں کو جام کرنا ... بے جا چیزوں اور بے جا جگہوں پر بلاوجہ پیسے اڑانا.... کہیں کہیں پر تو حد ہی ہوگئی ہے... اسٹیج پر آپﷺ کا نام لکھا ہوا ہے ڈی جے بج رہا ہے اور ایک عورت نیم برہنہ اسی اسٹیج پر شہوت انگیز ناچ ناچ رہی ہے...
آج سے بیالیس سال پہلے کا اشتہار دیکھیے:
*ڈرائیوان سینما میں جلسۂ سیرت النبیﷺ:*
*بروز جمعرات 18 اپریل 1974ء 6 بجے شام سے 12 بجے شب اس ماہ مبارک کی با برکت شب جمعرات بتاریخ 18/اپریل آپ جملہ حضرات اور خواتین سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس جلسۂ مبارک کی عظمت و برکات میں شرکت فرماکر داخلِ حسنات ہوں-*
*حج اور زیارتِ مدینہ منورہ کی رنگین فلمیں پیش کی جائیں گی- داخلہ بالکل مفت ہے-"*
(جنگ: مورخہ ۱۵ اپریل ص ⁴ بحوالہ اصلاحی مضامین ص ۳۰ مفتی تقی عثمانی مدظلہ العالی)
آج سے بیالیس سال پہلے یہ حال تھا تو اب تصور کیجیے بعض شہروں میں کیا کیا نہ ہوتا ہوگا... نیٹ چلانے والے گوگل اور یوٹوب پر بارہ ربیع الاول کے دن ایسے جلسوں اور سینما گاہوں کا حال دیکھ کر بڑھتی بے دینی کا احساس کرسکتے ہیں!
مسلمانوں ! اب یہ کسی فرقہ کا مسئلہ نہیں رہا آج جس طرح سے جشن عید میلاد النبی میں بے حیائی کر کے دین کو بدنام اور اس کے وقار کو گھٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسی حالت میں تمام مسلمانوں کی ذمہ یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس طرح کے حیا سوز جلسوں کے خلاف کھڑے ہوں اور نبیﷺ کے تئیں اپنی محبت کا پورا پورا ثبوت دیں ... اور یاد رکھیں کے جو دین ناچ گانے اور بے حیائی کو ختم کرنے کے لیے آیا ہو وہ خود ان چیزوں کی اجازت کیسے دے سکتا ہے...؟؟ اگر کوئی ان چیزوں کو کرتا ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تو ہوسکتا ہے لیکن مُحب نہیں ... اور جو نبی کے دشمنوں کا ساتھ دے گا وہ بھی نبی کا دشمن  ہوجائے گا اور جس نے نبی سے دشمنی کی اللہ اس کو کہیں کا نہیں چھوڑے گا...
اب بھی موقعہ ہے سوچنے کا... سمجھنے کا.... سنبھلنے کا...سنبھل جاؤ مسلمانو! سنبھل جاؤ!