عید کی حقیقی خوشی

~*یوم العید:مصطفی لطفی المنفلوطی*~
 
_*ترجمانی:ابو حمران*_

*عید کی حقیقی خوشی*

عید کی چاند رات میں ایک عورت کھلونوں کی دکان کے سامنے کھڑی تھی...دکان پہ کافی بھیڑ تھی...سب اپنے بچوں کو عید میں اچھا کھلونا پیش کرنا چاہتے تھے...یہ عورت بھی اپنے بچے کی ضد پر گھر سے کھلونا لینے نکل کھڑی ہوئی تھی...
اس کی نظر سنگ مرمر سے بنے ایک کھلونے پر پڑی....جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دوڑ گئی... *اس لیے نہیں کہ کھلونا بہت شاندار تھا؛بلکہ وہ اس کھلونے کو اپنے لختِ جگر کی نظر سے دیکھ رہی تھی* جسے وہ گھر پر یہ کہہ کر چھوڑ آئی تھی کہ اس کے لیے کھلونا لے کر آئے گی...اس نے دکاندار سے کھلونے کا دام پوچھا تو بہت مہنگا بتایا جس کی ادائیگی عورت کے بس سے باہر تھی...اس نے بھاؤ کم کرنے کے لیے کہا تو دکاندار نے انکار کردیا...عورت کو بڑی مایوسی ہوئی...کھلونا خریدنے کے اس کے پاس پیسے نہیں تھے...اور بنا کھلونے کے وہ گھر لوٹنا نہیں چاہتی تھی...چنانچہ مجبورا وہ، ایسانقدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی جسے ایسے وقت میں صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس کے سینے میں ماں جیسا دل دھڑک رہا ہو.
اس نے چپکے سے کھلونے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور احتیاط سے اپنی اوڑھنی میں چھپا لیا... اور سیدھے اپنے گھر کے رستے کو ہولی..
ایک ہی وقت میں اس کے دل میں دو مختلف دھڑکنوں نے ڈیرا ڈال دیا تھا...ایک دھڑکن اپنی اس چوری کے انجام کی تھی...اور دوسری اس خوشی کی تھی جو تھوڑی ہی دیر بعد یہ کھلونا اپنے بچے کو دے کر اسے حاصل ہونے والی تھی..
ادھر دکان کا مالک جو اپنی دکان کی ہر چیز پر گہری نظر رکھتا تھا اس سے عورت کی یہ حرکت چھپی نہ رہ سکی...جیسے ہی وہ دکان سے ہٹی اس نے چھپ کر اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا...ایک گھر میں داخل ہوتے دیکھ جب اسے پتہ چل گیا کہ یہی عورت کا گھر ہے تو لوٹ آیا اور جاکر پولیس چوکی میں اس چوری کی شکایت درج کرائی اور دو پولیس والوں کو ساتھ لے کر اس کے گھر پہونچا...جب وہ گھر میں گھسا تو دیکھا کہ کھلونا بچے کے ہاتھ میں ہے اور اپنی ماں کے سامنے بیٹھا اس کھلونے سے کھیل رہا ہے....اور ماں....وہ اپنے بچے کو پیار بھری نظروں سے کھیلتے دیکھ رہی ہے اور اس کی مسکراہٹوں میں مگن ہے...
کھلونے والے نے عورت کی طرف اشارہ کیا اور دونوں پولیس والے اس کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈالنے لگے...اور جب بچے کے ہاتھ سے کھلونا چھینا تو وہ زار وقطار رونے لگا... *اس وجہ سے نہیں کہ اس کا پیارا کھلونا اس سے چھین لیا گیا تھا... بلکہ وہ اپنی ماں کو دیکھ کر رورہا تھا* جس کو دو آدمیوں نے پکڑ رکھا تھا اور وہ ان کے درمیان کھڑی کانپ رہی تھی...بچہ دکان مالک کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہوگیا اور رو رو کر کھلونے والے سے کہنے لگا....میری ماں کو چھوڑ دو...میری ماں کو چھوڑ دو...
کھلونے والا مبہوت ہوکر رہ گیا...سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے...اسی سوچ میں تھا کہ فجر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی...وہ اذان جس کے بعد گھروں میں عید کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں...
اس کے ضمیر نے اسے کچوکے لگانا شروع کردیا کہ آج کے دن لوگ خوشیاں بانٹتے ہیں.. اور تُو ایک حقیر کھلونے کے لیے دو معصوم جانوں کی خوشیاں چھین لینا چاہتا ہے!؟
وہ پولیس والوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا:"معافی چاہتا ہوں... میں نے غلط فہمی میں ان خاتون کو چور سمجھ لیا تھا... اس قسم کا کھلونا میری دکان پر نہیں بکتا ہے...دور سے دیکھ کر میں غلط سمجھ بیٹھا تھا"...
یہ سن کر پولیس والے بڑبڑاتے ہوئے لوٹ گئے...اور دکان مالک بچے کی طرف بڑھا اور اس کے ہاتھ میں کھلونا پکڑا کر کہا:"مجھے معاف کرنا بیٹا! یہ تمہارا ہی کھلونا ہے"..
پھر وہ عورت سے مخاطب ہوکر بولا: "بہن میں نے تمہارا بہت دل دکھایا ہے...مجھے یقین ہے کہ تم عید کے دن کی ہی لاج رکھ کر میری زیادتی کو معاف کردوگی"...!؟
عورت کی پیشانی چوری کے سبب خجالت وشرمندگی سے عرق آلود تھی...اس نے بس اتنا کہا کہ "میں اپنے فعل پر شرمندہ ہوں...ممتا سے مجبور تھی"!
کھلونے والے نے اپنا پرس نکالا اور اس میں سے روپے نکال کر عورت کے منع کرنے کے باوجود یہ کہہ کر کہ ایک بھائی کی طرف سے عیدی ہے اس کے ہاتھوں پر رکھا اور یہ کہہ کر نکلا چلا گیا کہ عید کی سوئیں پینے ضرور آؤں گا...

_*☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆*_

_عید کی چاند رات میں آسمان پر دو ستارے نمودار ہوتے ہیں.. ایک خوش بختی کا ستارا اور ایک بدبختی کا.... پہلا تو ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جنہوں نے اچھے اچھے پکوان کا انتظام کر رکھا ہے.. اپنے اور بچوں کے لیے نئے نئے کپڑے سلا رکھے ہیں...گھر کو سجا رکھا ہے... مہمانوں کو بلا رکھا ہے....اور رات کو نرم نرم بستر پر لیٹ کر عید کے دن کے خوبصورت خواب دیکھتے ہیں..._
_اور دوسرا ستارا ان غریبوں اور مسکینوں کے لیے ہوتا ہے جو رات میں اپنے کھردرے بستر پر لیٹ کر آہیں بھرتے ہیں... جن کے بچوں کی نگاہیں سراپا سوال بنیں ہوتی ہیں کہ ہمارے لیے نئے نئے کپڑے کیوں نہیں سلوائے گئے جسے پہن کر ہم اپنے دوستوں کے ساتھ عید میں کھیل سکیں...ہمیں کھلونے کیوں نہیں خریدے گئے...ہمارے نئے جوتے کہاں ہیں... اور وہ اپنے آنسؤوں کو ضبط کرکے انہیں جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ نہیں دے پاتے ہیں..._
_کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو خوش بخت لوگ ہیں وہ ان غریبوں پر کچھ احسان کرسکیں؟؟کیا ہر ایک "کھلونے والا "نہیں بن سکتا کہ اللہ نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے تھوڑا ساہی دے کر انسانیت پر احسان کردیں..؟!_
_ایسا انسان جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اور سینے میں انسانیت کے تئیں دردمند دل بھی ہے...وہ عید کی نماز کو جاتے ہوئے یا نماز پڑھ کر لوٹتے ہوئے...یا کسی اور موقعہ پر کسی ایسے بچے کو دیکھے جو پرانے کپڑے پہن کر گھر سے کسی ضروری کام سے نکلا ہے... آنکھیں آبدیدہ ہیں...دیواروں اور درختوں کی آڑ لے کر چھپتا چھپاتا جارہا ہے کہ کہیں دوستوں کی نظر نہ اس پر پڑجائے اور اس کی غربت اور فقر تماشہ بن کر رہ جائے...ایسے بچے کو دیکھ کر یقینا وہ شخص شفقت و محبت میں اسے گلے سے لگا لے گا اور اس کے ساتھ "کھلونے والے"کا سا معاملہ کرے گا...کیونکہ وہ جانتا ہے کہ *انسان کو چاہے جتنی خوشیاں میسر آجائیں وہ اس خوشی کے سامنے ہیچ ہیں جو کسی درد مند کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو پوچھنے سے حاصل ہوتی ہے.*..!_

_اللہ کے بندو!یہ غریب مسکین اپنا پورا سال تو تنگ دستی اور فاقہ کشی میں گزار دیتے ہیں..کیا انہیں اتنا بھی حق نہیں کہ کم ازکم سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ ہم انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرسکیں؟جبکہ یہی عید کی حقیقی خوشی ہے!!_
_ﺑﮩﺖ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﻋﯿﺪ ﻣﻨﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﭘﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﭙﮍﺍ ﺳﻼﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﺍﮨﻞِ ﺣﯿﺜﯿﺖ چمکیں گے ﺍﻭﺭ چہکیں گے،ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺠﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﻓﻄﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺯﮐﻮۃ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﻨﺪﮬﯽ ﮨﮯ،ﻣﺴﺘﺤﻖ ﮨﻮﮞ ﺍس کا یہ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ بتاﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﺭﻭﻧق ﮨﻮﮔﯽ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ،ﺍﮮ ﺩﻭﺳﺖ ! ﺗﻮ ﮨﯽ ﺑﺘﺎ یہ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺑِﺘﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟_

_ہماری امداد کے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے حالات سے ناواقف لوگ سمجھتے ہیں کہ مالدار ہوں گے... ایسے لوگوں کو ڈھونا پڑتا ہے... خاص علامتوں سے ہی وہ پہچان میں آتے ہیں...لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مانگا نہیں کرتے.._
_"یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ°تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ°لَایَسْاَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا°"_

قیمتی آنسو

عاشقوں کے آنسوجمع کرو!۔۔۔وہ ہیروں سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں؛مگر آنسو جمع کرنے سے پہلے اچھی طرح اطمینان کرلو کہ کہیں عاشق نزلے میں تو مبتلا نہیں ہے!!

حلال ہے مگر اتنا حلال تھوڑی ہے


حلال ہے مگر اتنا حلال تھوڑی ہے
یہ مرغا اکَّھا ہی کھانا کمال تھوڑی ہے

ہزاروں اور بھی آئیں ہیں پیارے!دعوت میں
ہمیں تمہارا ہی تنہا خیال تھوڑی ہے

مزا تو جب ہے کہ تم کھا کے just اٹھ جاؤ
ہمیشہ بیٹھے ہی رہنا کمال تھوڑی ہے

لگانی پڑتی ہے لائن یہاں پہ کھانے کو
بھکاریوں سی یہ دعوت وبال تھوڑی ہے!

کھلا ہی چھوڑ دیا لڑکیوں کو لڑکوں میں
زمانہ تُھو کرے ان کو ملال تھوڑی ہے !

ذرا سنبھال کے لپکو تم اپنا موبائل
اجی مسکال ہے،کوئی مس کی کال تھوڑی ہے!

غرور خاک میں مل جائے گا حسینوں کا
فنا ہے سب کو ،کوئی لازوال تھوڑی ہے

"ہماری بچی کا رشتہ بہت ہی مہنگا ہے"
فقط یہ آپ کے گھر کا ہی حال تھوڑی ہے

کوئی یہ کہہ دے مدارس کے ذمہ داروں سے
"زکوۃ ہے کوئی ابّا کا مال تھوڑی ہے"!

مدَرِّسو سنو مارو نہ اتنا بچوں کو
نبی کے مہماں پہ قمچی حلال تھوڑی ہیں !

ہر ایک دنگے میں آتا ہے نام مسلم کا
"عروج" کہتے ہیں اس کو، زوال تھوڑی ہے!

نصابِ تعلیم اور نظام تعلیم

نصابِ تعلیم سے زیادہ آج نظامِ تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے... نصاب کتنا ہی اچھا کیوں نہ متعین کردیں... اگر نظام صحیح نہیں ہے تو کوئی فائدہ نہیں... آج ایسے مدرسوں کی کمی نہیں ہے جہاں نصاب میں تبدیلی نہ کی گئی ہو... لیکن کتنے مدرسے اس میں کامیاب ہوئے؟؟
نظام بہتر ہو اور اساتذہ بھی صحیح معنوں میں"اساتذہ"ہوں تو خواہ قدیم نصاب ہو یا جدید بہر حال طلبہ جدید حالات کو سمجھنے لائق پیدا ہوں گے... اور اگر نظام تعلیم میں خلل ہو... اساتذہ بھی تنگ ذہن ہوں... پھر چاہے جتنا آپ نصاب بدل لیں... طلبہ وہاں سے جامد ذہن ہی لے کر نکلیں گے...
مولانا ابو الحسن علی قاسمی ندوی رحمہ اللہ "پاجا سراغِ زندگی کے صفحہ نمبر 168پر فرماتے ہیں کہ:
"......لیکن میں آپ سے کہتا ہوں کہ زیادہ مسئلہ نصاب کا بھی نہیں،زیادہ مسئلہ محنت کاہے،اور اساتذہ کے پڑھانےکا ہے،قدیم نصاب سے وہ لوگ تیار ہوئےجو آج جدید نصاب سے تیار نہیں ہوتے ہیں ،کیابات ہے؟؟؟حالانکہ یقینی بات ہے کہ قدیم نصاب سے جدید نصاب کی بعض چیزیں یقیناً بہتر ہیں،مثلا قدیم نصاب پڑھ کر فلاں فلاں پائے کے عالم نکلے،اور اب جب کہ نثر کی اچھی اچھی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں،آج ایسے لوگ نہیں پیدا ہورہے ہیں ،اگر نصاب ضامن ہوتا تو اب پیدا ہونا چاہیے"

میری جان...ہندوستان

سارے جہاں سے اچھا ، ہندوستاں ہمارا
ڈاکے پڑے ہیں اس پہ ، اتنے ...ہوا کباڑا 

کرتے ہیں قید ہم کو ، القاعدہ کا کہہ کے
حد میں رہو کمینو ، حق چھینو نہ ہمارا

مذہب ہے کیا سکھاتا ، مطلب نہیں ہے اس سے
تم تو وہی کروگے ، دل جو کہے تمہارا

اپنے عمل کے پھل ہیں ، ہونا تھا ایک دن یہ
جو چائے بیچتا تھا ، ہے بادشاہ ہمارا

"دنگا" کسے ہیں کہتے ، واقف نہیں مسلماں
خود ہی فساد کرکے ، نہ نام لو ہمارا

ہم کو مٹانے والے ، خود مٹ گئے جہاں سے
ہر دور میں رہا ہے ، اک دبدبہ ہمارا

بیدار ہوگئے تو ، رستہ نہیں ملے گا
اس واسطے ہے دشمن ، سارا جہاں ہمارا

انگریز کو بھگایا ہم نے ہی جان دے کر 
اس ملک کی زمین میں شامل ہے خوں ہمارا 

چھوڑیں گے ہم نہ ہرگز اس ملک کو کبھی بھی 
یہ ملک ہے خدا کا اور ہے خدا ہمارا 

پربت وہ سب سے اونچا ، ہمسایہ آسماں کا
"تھا" سنتری ہمارا ، "تھا" پاسباں ہمارا

یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
خود کو بچاؤ للہ ، مٹنے نہ دو خدارا

عزت سے کھیلتے ہیں ، اس کی ہزاروں نیتا
گلشن ہے جن کے دم سے دوزخ نما ہمارا

کیسےکہوں میں اسکو،"سارے جہاں سے اچھا"
گلشن اجڑ گیا ہے ، بلبل ہیں بے سہارا

اقبال نے کہا پھر"غیرت" سے خواب میں یہ
مودی کے دور میں ہے ، کچھ بھی نہیں ہمارا

پھر بھی کہو یہ جبراً،سارے جہاں سے اچھا
کچھ تھوڑا ہے ہمارا ، باقی کا سب تمہارا

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

تعزیہ داری و ماتم کی حقیقت

ومن أضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اللہ۔۔۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کی شکل میں ایک دستور الحیاۃ عطا فرمایا ہے۔۔راہ حق پر چلنے اور ثابت قدم رہنے کے لیے اس دستور پر عمل کرناہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔۔جس نے اس دستور الحیاۃ سے ہٹ کر کوئی دوسرا دستور اپنایا وہ گمراہ ہوا۔۔
دنیا میں مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں ان میں دوسرے اصول و قواعد کو لے کر چاہے جتنا اختلاف ہوا ہو لیکن ایک اصول میں سب کو متفق ہونا پڑے گا وہ اصول ہے’’قرآن وحدیث یعنی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر عمل اور نافرمانی سے گریز‘‘جو بھی اس اصول کی حد کو پھلانگے گا وہ اپنے آپ کو کتنا ہی مسلمان ثابت کرے ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہوگا۔۔۔
اللہ تعالی نے اس امت کو ’’امت وسط‘‘یعنی اعتدال والی امت سے موسوم کیا ہے(وکذلک جعلناکم أمۃ وسطا)کیونکہ اللہ تعالی کو اعتدال پسند ہے اور وہ اپنے دین میں اعتدال ہی دیکھنا چاہتا ہے۔۔
یہ محرم کا مہینہ ہے ۔۔۔اس مہینے میں جتنی بھی خرافات ہوتی ہیں وہ نہ تو قرآن وحدیث سے ثابت ہیں اور نہ اکابرین امت نے ایسا کیا ہے۔۔۔جو دین بانسری بجانے سے بھی منع کرتا ہے وہ ڈھول تاشے، گانے بجانے، تعزیہ، سینہ کوبی، علم اور سبیل وغیرہ میں ہنگامہ کرکے سارے شہر کو سر پہ اٹھا لینے کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟۔۔۔
علما نے لکھا ہے کہ یہ سارے امور بدعت و ناجائز ہیں اور روافض کا شعار ہیں اس لیے ان میں شرکت ناجائز ہے۔۔۔بعض نے تو شرک کا خطرہ بھی بتایا ہے۔۔
اس لیے مسلمانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی جگہوں پر جہاں تعزیہ کا جلوس نکلتا ہو خود بھی نہ جائیں اور اپنے بچوں، اعزہ اقارب اور دوستوں کو بھی ایسی جگہ جانے اور ان میں شرکت کرنے کا گناہ بتاکر روکیں۔۔ورنہ خطرہ ہے کہ حدیث’’من کثر سواد قوم فھو منھم ‘‘جس نے کسی قوم کی (تقریب یا رسم ورواج میں شریک ہوکر اس کی)اکثریت میں اضافہ کیا تو وہ انہیں میں شمار ہوگا۔کی رُو سے شرکت کرنے والے فاسق وفاجر نہ لکھ دیے جائیں ۔۔۔اللہ بچائے!
شریعت نے کسی کی وفات پر نوحہ کرنے اور گریبان پھاڑ کر رونے چلانے سے منع کیا ہے۔۔خود سوچیئے کہ اگر ماتم کرنا جائز ہوتا تو یہ سلسلہ نبی ﷺ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے فورا بعد سے شروع ہوجانا چاہیے تھا لیکن کسی بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ آپﷺ کے بعد کسی صحابی نے ماتم کیا ہو۔۔
احادیث میں ماتم ونوحہ کرنے پر بڑی وعیدیں آئیں ہیں:
بخاری میں ہے’’لیس منا من لطم الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاہلیہ‘‘جس نے منہ پیٹا ،گریبان چاک کیااور زمانہءجاہلیت جیسے بین کیے وہ ہم میں سے نہیں۔
’’شریعت اسلام میں حادثہء کربلا کی یادگار قائم رہنے کی بابت کوئی ہدایت موجود نہیں اور نہ حضرات صحابہ وتابعین نے واقعہء کربلا کی بنا پر عاشورا میں کوئی تقریب کسی قسم کی قائم کی۔۔رفتہ رفتہ عہد رسالت سے جتنی دوری ہوتی گئی جہاں اور بہت سی رسوم،بیرونی اثرات کی بنا پر مسلمانوں میں شامل ہوگئیں وہیں محرم کے نام سے بھی ایک خاص تقریب کا اضافہ ہوگیا ۔۔۔احادیث نبوی،آثارصحابہ،اقوال سلف صالحین کہیں سے اس رواج کا پتہ تین ساڑھے تین سو سال تک کے زمانے میں نہیں چلتا۔۔۔البتہ یہ واقعہ تاریخوں میں درج ہے کہ ایک عباسی خلیفہ کے ایک مشہور ذی اثر شیعی وزیر معزالدولہ نے سنہ۳۵۲ھ میں شہادت امام حسین کی یادگار منانے کے لیے یوم عاشورا کو مقرر کردیا۔۔اسی وزیر کے حکم سے اسی سنہ میں جامع مسجد بغداد پر صحابہء کرام پر (نعوذ باللہ)لعنت لکھی گئی۔۔۔۔لہذا اہل السنۃ مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دسویں محرم کو بطور ماتم قرار دینا نہ شریعت میں اس کا کوئی حکم ہے اور نہ ان کے ہاں کے کسی بزرگ کے حکم کی تعمیل ہے؛ بلکہ یہ ایجاد ایک شیعی وزیر سلطنت کے دماغ کی ہے۔۔
اودھ میں شیعی سلطنت چونکہ عرصے تک قائم رہی اس لیے قدرتا یہاں کے مسلمانوں کے تمدن ومعاشرت میں شیعیت کے اجزا بکثرت شامل ہوئے اور تعزیہ داری کا رواج بھی یہاں بکثرت پھیل گیا۔۔۔کوئی دستور جب پرانا ہوجاتا ہے تو عوام اسے اپنے مذہب واعتقاد کا جزء سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔یہی صورت رسم تعزیہ داری سے متعلق بھی ہے۔۔۔جن آبادیوں میں صحیح مذہبی تعلیم نہیں پھیلی ہے اور لوگ شریعت اسلام کی صحیح تعلیم سے ناواقف ہیں وہاں قدرتا یہ رواج سختی کے ساتھ پھیلا ہوا ہے‘‘۔بحوالہ رسومات محرم
مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی اپنی کتاب تاریخ اسلام جلد سوم صفحہ 929 پر لکھتے ہیں کہ:
"سنہ ٣٥٢ ہجری کے شروع میں ابن بویہ (معزالدولہ)نے حکم دیا کہ ١٠ محرم کو امام حسین کی شہادت کے غم میں تمام دوکانیں بند کردی جائیں بیع وشرابالکل موقوف رہے ۔شہرودیہات کے تمام لوگ ماتمی لباس پہنیں اور اعلانیہ نوحہ کریں عورتیں اپنے بال کھول کر ،چہروں کو سیاہ کئے ہوئے ،کپڑوں کو پھاڑے ہوئے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیہ پڑھتی ہوئی ،منہ نوچتی اور سینہ کوبی کرتی ہوئی نکلیں ۔شیعوں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی مگر اہل سنت دم بخود اور خاموش رہے کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی ۔آئندہ سال ٣٥٣ہجری میں پھر اسی حکم کا اعادہ کیا گیا اور سنیوں میں فساد برپا ہوا۔بہت بڑی خون ریزی ہوئی اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیر عمل لانا شروع کر دیا اور آج تک اسی کا رواج ہندوستان میں اکثر سنی لوگ بھی تعزیئے بناتے ہیں"۔تاریخ اسلام
ان تاریخی حقائق پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ تعزیہ داری کی بنیاد حُبِّ حسین نہیں بلکہ بغض صحابہ ہے... ان تعزیوں میں جو قصیدے پڑھے جاتے ہیں وہ خاص طور سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پر تبرّے اور ان کی ہجو پر مشتمل ہوتے ہیں... اسی کے سدباب کے لیے مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی اور ان کے رفقا نے مدح صحابہ جلوس کا آغاز کیا تھا... جو آج بھی حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی دامت برکاتھم کی نگرانی میں جاری ہے تاکہ اہل السنہ مسلمانوں کو ایسی مجلسوں میں جانے سے روکا جاسکے اور ان کے دلوں میں صحابہ کی محبت کو باقی رکھا جاسکے... یہ جلوس چونکہ بدعت کا مقابلہ کرنے کے لیے اور مسلمانوں کو گناہ سے اور ان کے عقائد کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے نکالا جاتا ہے اس لیے یہ بدعت نہیں ہوگا... یہ بھی باطل سے مقابلہ کرنے کی ایک صورت ہے!