کتے

کتے صرف چار پیروں والے نہیں ہوتے، دو پیروں والے کتوں کی نسل بھی دنیا میں پائی جاتی ہے، ان کتوں کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ دانت سے نہیں کاٹتے بلکہ اپنی اس سڑی بسی زبان سے کاٹتے ہیں جو دوسروں کے تلوے چاٹتے چاٹتے موٹی ہوگئی ہے۔۔۔ان کتوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر وقتا فوقتا انہیں ان کے کتے ہونے کا احساس نہ دلایا جائے تو وہ پاگل ہوجاتے ہیں اور ہمیں ہر لمحہ ان کے کاٹے کا ڈر لگا رہتا ہے۔۔۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ کتے اپنے کتے پن کے باوجود ہاتھوں میں قلم پکڑنا جانتے ہیں اور منہ سے بھونکنے کی بجائے اسی قلم سے بھونکتے ہیں۔۔۔ کچھ کتے بھونکتے بھونکتے اتنے مشہور ہوجاتے ہیں کہ کتا یونین انہیں کتوں کا سردار بنادیتی ہے ۔۔۔اور پھر یہ کتے جس طرح سے چاہتے ہیں جیسے چاہتے ہیں لوگوں پر بھونکتے اور انہیں کاٹتے رہتے ہیں۔۔۔میرا بھی کئی مرتبہ ایسے کتوں سے سابقہ پڑ چکا ہے لیکن میں نے اپنے حواس بجا رکھے اور ان کتوں کو انہیں کی زبان میں جواب دے کر انہیں خاموش کیا۔۔۔
ان کی ایک بری عادت یہ بھی ہے کہ آپ کسی طریقے سے انہیں بھونکنے سے روک بھی دیں تو اندر ہی اندر غراتے رہتے ہیں۔۔۔گویا کہہ رہے ہوں آج تو بچ گیا آئندہ ہوشیار رہنا۔
ویسے مجھے ان کتوں سے کبھی کچھ لینا دینا نہیں رہا اور نہ ہی میں ان کتوں پر اتھارٹی ہوں۔۔۔ہاں اتنا ہے کہ جب سنسان سڑک پر اکیلے جارہا ہوتا ہوں تو ہر لمحہ اپنی تشریف خطرے میں نظر آتی ہے ۔۔۔
بھوت پریت کا میں کبھی قائل نہیں رہا اور نہ آئندہ قائل ہونے کی امید ہے لیکن کتوں کے وجود سے مجھے انکار نہیں ،آنکھ اور تشریف پاس میں ہے تو ہر جگہ کتے ہی کتے ہیں۔۔۔
جس طرح افطاری میں پکوڑے اور کلینگڑ ضروری ہیں اسی طرح دنیا میں ان کتوں کا وجود بھی ضروری ہے ۔۔۔
ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔۔۔دو پیروں والے کتوں کے وجود کا مقصد شاید یہ ہو کہ دوپیر والے انسان اپنی قدر پہچان سکیں اور ان کتوں کو دیکھ کر عبرت لیں تاکہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ان سے "کتا پن" سرزد نہ ہوسکے۔۔۔!

سحری کی دعا(لفظ "غد" کا مسئلہ)

سوشل میڈیا پر آج کل سحری کی دعا میں مذکور لفظ "غد" کو لے کر خوب اعتراض کیا جارہا ہے اسی کو سامنے رکھ کر یہ تحریر لکھی گئی ہے!

روزے کی نیت کے سلسلے میں غیر مقلدین ہم پر دو اعتراض کرتے ہیں :
۱)ہم جن الفاظ سے نیت کرتے ہیں وہ احادیث سے ثابت نہیں ،بلکہ بدعت ہے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ ہماری کسی کتاب میں بھی یہ لکھا ہوا دکھا دیں کہ نیت کے کچھ خاص الفاظ حدیث سے ثابت ہیں ، یا کسی خاص دعا کو احناف لازم قرار دیتے ہیں؛ بلکہ جہاں بھی دیکھیں گے یہی ملے گا کہ روزہ کی نیت کا دل میں کرلینا کافی ہے زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ، ہاں زبان سے نیت کرلینا بہتر ہے، اور اسی وجہ سے(یعنی زبان سے نیت کرنے کے بہتر ہونے کی وجہ سے) وہ خاص دعا مشہور ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے ، لیکن معترضین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں حنفیہ کا کچھ قصور نہیں بلکہ قصور تو ان کمپنیوں، ہوٹلوں، آفسوں اوردکانوں کا ہے جو رمضان کارڈ پر اس دعا کو لکھ کر عام کر رہے ہیں(ان میں خود غیر مقلدین بھی شامل ہیں)اور ناخواندہ عوام اسے ضروری سمجھ کر اس پر عمل کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ دعا پڑھ کر روزہ صحیح ہو جائے گا؟ جواب:ہاں؛ کیونکہ روزے کیلئے نیت کا ہونا ضروری ہے اور اس دعا کی وجہ سے نیت پا لی گئی؛ لیکن نیت کرنے والے کو یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ یہ الفاظ حدیث سے ثابت نہیں ؛لیکن ہم یہ دعا اس لیے پڑھ لیتے ہیں ہمیں عربی آتی نہیں ،اور اردو میں یہ کہنے سے کہ’’میں اللہ تعالیٰ کےلئے رمضان کاروزہ رکھتا ہوں‘‘ انہیں الفاظ کو عربی میں ’’نویت ان اصوم غداً للّٰہ تعالی من شہر رمضان‘‘ کہہ لینے کو بہتر سمجھتے ہیں۔
جب ہم نیت کی دعا کو لازم وضروری قرار نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی اردو میں بھی نیت کرلے تو اس کا روزہ ہو جائے گا تو پھر بدعت کہاں!!؟
بدعت تو اسے کہتے ہیں کہ کسی چیز کو جو دین سے نہ ہو اسے دین سمجھ کر لازم کر لیا جائے۔
۲)دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ ہمارا روزہ صحیح نہیں ہوتا ؛کیونکہ ہم جس دن کا روزہ رکھتے ہیں اس سے اگلے دن کے روزے کی نیت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ نیت کی دعا میں لفظ ’’غد‘‘ ہے جس کا معنی( ان کے نزدیک) صرف ’’آئندہ کل‘‘ہے، اور آئندہ کل کی نیت کرنے سے آج کا روزہ کیسے ادا ہوگا؟
افسوس ان کی عقلوں پر اور عربیت سے ان کی نا واقفیت پر!انہیں’’ غدا‘‘ کے محل استعمال اور اس کے معنی کا ہی پتہ نہیں اور دعوی خود سے قرآن و حدیث سمجھنے کا!!
یہ بیچارے سمجھتے ہیں کہ ایک لفظ کا ایک ہی معنی ہوتا ہے ، اور وہ بھی وہ جو انہیں باپ دادا سے وراثت میں ملا ہوتا ہے ،لغت تو یہ دیکھ نہیں سکتے؛ کیونکہ اس کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے اگر تھوڑا بہت جان لیا تو اردو -عربی اور عربی-اردو لغت دیکھ لیا ؛لیکن اس میں وہ سارے معانی کہاں ملنے والے جو عربی کی بڑی بڑی کتب لغات میں ملتے ہیں اور عربوں کے یہاں معتبر مانے جاتے ہیں، کہاں عربی لغت کی ۴۰،۴۵ جلدیں اورکہاں اردو کی مصباح اللغات، القاموس الوحید وغیرہ جو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو جلدوں میں ہیں ،اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ جو باتیں ۲۵،۵۰ جلدوں میں ہیں وہ۱،۲ جلدوں میں کیسے آسکتی ہیں؟ اب اگر کوئی مصباح اللغات دیکھ کر یا باپ دادا سے وراثت میں ملے ہوئے معنی کو لیکر اعتراض کرتا ہے تو اسے کیا کہیں گے ؟یقیناً باؤلا کہیں گے۔
دیکھیے معترضین نے جس لفظ (غد) کو لے کر اعتراض کیا ہے اس کے وہی ایک معنی نہیں ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں یعنی(کل)؛بلکہ اس کے اور بھی معنی ہیں جن کا استعمال کلام عرب بلکہ خود قرآن میں بھی ہوا ہے۔
لغت کی ایک بڑی کتاب ’’النہایہ‘‘ میں حضرت عبدالمطلب کا ایک شعر ذکر کیا گیا ہے:
لایغلبن صلیبہم-ومحالہم غدواًمحالک
اس شعر کو ذکر کرنے کے بعد صاحب نہایہ کہتے ہیں کہ عبدالمطلب نے ’’غد‘‘ سے وہ کل مراد نہیں لیا ہے جو آج کے بعد آنے والا ہے ؛ بلکہ قریبی زمانے کو مراد لیا ہے(اور وہ قریبی زمانہ آج بھی ہو سکتا ہے اور کل کے بعد پرسوں، نرسوں بھی ہو سکتا ہے)۔
اسی طرح قرآن میں ہے:
’’ولا تقولن لشیئی إنی فاعلٌ ذلک غدا إلا أن  یشاء اللہ ‘‘
(ترجمہ:اور (اے پیغمبر!)کسی بھی کام کے بارے میں کبھی یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کرلوں گا، ہاں (یہ کہو) کہ اللہ چاہے گا تو(کرلوں گا)۔
اس میں بھی ’’غد‘‘ سے بعینہ کل مراد نہیں ہے ورنہ مطلب میں خلل آتا ہے ؛کیونکہ مقصود صرف کل کے کام کے لیے ان شاءاللہ کہنا نہیں ہے؛ بلکہ اگر آج ہی کوئی کام کرنا ہے تو بھی ان شاءاللہ کہنا ہے اور پرسوں، نرسوں کوئی کام کرنا ہے تو بھی ان شاءاللہ ضروری ہے، اگر وہاں اردو لغات والا معنی لیا گیا تو مطلب ہوگا کہ اگر کل کے دن کوئی کام کرنے کا ارادہ ہو تو ان شاءاللہ کہنا ضروری ہوگا دوسرے دن میں نہیں ۔
اسی طرح سورہ حشر میں ہے
’’ولتنظر نفس ما قدمت لغد‘‘
(ہرشخص یہ دیکھے کہ اس نے کل (قیامت) کیلئے کیا آگے بھیجا ہے)۔
اس میں بھی "غد" سے مراد آئندہ کل نہیں ہے بلکہ قیامت کا دن مراد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اب غیر مقلدین کیا کہیں گے!!!؟؟؟؟
بھائیوں غیر مقلدین! تحقیق کے لیے دیکھیے ’’اللسان‘‘’’تاج العروس‘‘ ’’المصباح‘‘عربی والی اور’’ مجمع البحار‘‘،اگر خود سے نہ پڑھ سکیں تو کسی قاسمی سے پڑھوالیں۔
یہ تو تھی ان کی عربیت سے ناواقفیت کی دلیل، ساتھ ساتھ یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ان کا تفسیر سے بھی کوئی تعلق نہیں ورنہ کیا بات ہے کہ انہیں قرآن میں آئے لفظ’’ غد‘‘ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔ایک اور چیز ہے جس سے یہ ناواقف ہیں اور جسے عربی زبان کی کنجی کہا جاتا ہے، وہ ہے نحو وصرف یعنی عربی کے گرامر، اس میں ایک چیز ہے معرفہ نکرہ ، اس کے استعمال سے بھی معنی بدل جاتے ہیں ؛چنانچہ اسی لفظ ’’غد‘‘ کو لے لیجیے اگر اسے معرفہ یعنی الف لام کے ساتھ (الغد) استعمال کرتے ہیں تو عموماً اس کا معنی ’’آئندہ کل‘‘ ہوتا ہے، کبھی کبھی قرینہ کی وجہ سےدوسرے معنیٰ مراد لے لیئے جاتے ہیں جیسے اہل عرب کہتے ہیں ’’سیکون لک الغد الافضل‘‘ اس میں’’ الغد الافضل‘‘ سے مراد شاندار مستقبل ہے اور اس کا قرینہ لام اختصاص ہے۔ اور اگر نکرہ(غد) استعمال کرتے ہیں تو وہی معنی مراد ہوں گے جو عبد المطلب کے شعر اور قرآن میں ہیں، اور یہی استعمال (نکرہ والا) نیت کی دعا میں بھی ہے لہٰذا وہاں بھی وہی معنی مراد ہوگا یعنی صبح صادق کے فورا بعد والا زمانہ۔

غیر مقلدین کو تو ہماری فقہ سے خدا واسطے کا بیر ہے اس لیے ہم ان کے لیے تو نہیں ۔۔۔اپنے خدا ترس بندوں کے لیے یہ لکھ رہیں ہیں کہ ہماری فقہ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ روزہ دار رمضان کے مہینے میں چاہے جس روزے کی نیت کرے:نذر کی کرے، قضاء کی کرے، یاجس دن کی کرے :پیر کے دن منگل کی کرے ،بدھ کی کرے روزہ اسی دن کا ادا ہوگا جس دن میں یہ نیت کررہا ہے۔

بحثیتِ فردِ مسلم ہماری ذمہ داری

ہمارا سب سے بڑا المیہ۔۔۔ہماری بزدلی ہے۔۔۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ ہم یا تو خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔۔۔ہمارے آس پاس کیا ہورہا ہے اس کی ہمیں خبر نہیں ہے یا ہمارے دل اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ ہمارے آس پاس جو کچھ بھی ہورہا ہے اس پر ہم تڑپنا نہیں جانتے ہیں۔۔۔یا سب کچھ ہوتا دیکھ کر بھی خاموش اس لیے ہیں کہ مصیبت ہم پر تھوڑے نازل ہوئی ہے ۔۔۔جب ہم پر آئے گی تو دیکھ لیں گے!!!
اگر ایسا ہے -خدا نہ کرے- تو ہم بے حس ہوگئے ہیں ہمارے لیے زمین کے اوپر کی جگہ سے اچھی جگہ زمین کے نیچے ہے۔۔۔
دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت نے ہمیں بزدل بنادیا ہے۔۔۔آج مسلمانوں کی جتنی تعداد ہے ۔۔۔جتنے اسلامی ممالک ہیں پہلے اتنے نہ تھے مگر پھر بھی مسلمانوں کا ایک رعب و دبدبہ تھا ۔۔۔ دشمنوں کے پاس سامانِ جنگ کی کثرت کے باوجود ان کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ آنکھ اٹھاکر بھی مسلم ممالک کی طرف دیکھ لیں۔۔۔آج مسلمانوں کی اتنی کثرت کے باوجود ہر طرف سے ان پر مظالم کیوں ڈھائے جارہے ہیں؟ ۔۔۔۔جواب ہے ۔۔۔اور یہ کسی دانشور ، مفتی یا مفکر کا نہیں ہے ۔۔۔بلکہ ایسی شخصیت کا ہے جس کے جواب کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا۔۔۔کیا جواب ہے اور اسے کس نے دیا ہے دیکھیے:
: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "  يُوشِكُ أَنْ  تَدَاعَى عَلَيْكُمُ الأُمَمُ مِنْ كُلِّ أُفُقٍ كَمَا تَتَدَاعَى الأَكَلَةُ عَلَى قَصْعَتِهَا ، قُلْنَا : مِنْ قِلَّةٍ بِنَا يَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ : لا ، أَنْتُم يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ ، وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ ، يَنْزَعُ اللَّهُ الْمَهَابَةَ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّكُمْ وَيَجْعَلُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ ، قِيلَ : وَمَا الْوَهَنُ ؟ قَالَ : حُبُّ الْحَيَاةِ وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ "
آج مسلمانوں کی جو صورتِ حال ہے اور کثرت کے باوجود ہر طرف مارے کاٹے جارہے ہیں اس کی وجہ جب صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے دریافت کی تو آپ نے فرمایا تھا کہ وہ کثرت کے باوجود ہر طرف مارے کاٹے اس لیے جائیں گے کہ انہیں دنیا سے محبت ہوجائے گی اور موت کو ناپسند کرنے لگیں گے۔۔۔
اگر ہمیں دنیا میں عزت کے ساتھ بے خوف ہوکر جینا ہے تو دشمنوں کے دلوں میں اپنا خوف بِٹھانا پڑے گا، لیکن اس کے لیے مار کاٹ ضروری نہیں بس اس کا احساس دلادینا کافی ہوگا کہ ہم مقابلہ کرنے اور دشمنوں کو نقصان پہنچانے کی طاقت اور ہمت رکھتے ہیں ۔۔۔ضرورت پڑی تو استعمال بھی کرسکتے ہیں۔۔۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اسی کا احترام کرتی ہے جس سے نفع پہنچنے کی امید یا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔۔۔جس سے نہ کوئی نفع پہنچتا ہو نہ نقصان اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔۔۔چیونٹی ہی کو لے لیجیے۔۔۔کتنا چھوٹا جانور ہے لیکن اگر بستر میں کہیں نظر آکر چھپ جائے تو نیند حرام کردیتی ہے۔۔۔کیوں؟ ۔۔۔اس لیے کہ وہ کاٹتی ہے ۔۔۔۔بچھو ڈنک مارتا ہے سانپ ڈستا ہے ۔۔۔اس لیے ان سب سے ڈرا جاتا ہے ۔۔۔۔یہ ہے انسانی فطرت!
اب ہم خود کو دیکھیں ہم صرف نفع اٹھانے کی چیز رہ گئے ہیں ۔۔۔"یُوز اینڈ تھرو" کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں بس ۔۔۔ہماری کوئی قیمت نہیں ہے اور نہ ہی ہماری کوئی آواز ہے ۔۔۔ہماری آواز تو اتنی پست ہوگئ ہے کہ اس کی باز گشت بھی سنائی نہیں دیتی۔۔۔موت سے فرار نے ہمیں موت سے پہلے ہزاروں دفعہ موت دیا ہے۔۔۔
دنیا سے محبت اور موت کو ناپسند کرنا ضعفِ ایمان کی دلیل ہے ۔۔۔اور ضعفِ ایمان سے روح میں کمزوری آتی ہے اور روح کمزور ہوجائے تو انسانی جسم بھی بے کار ہوجاتا ہے جسے ہر طاقت والا ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہتا ہے۔۔۔
جاگو جاگو۔۔۔اب بھی وقت ہے مسلمانو! کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر عمل کرو، دنیا کی محبت دل سے نکال دو، آخرت کی فکر کرو، عملِ صالح سے اپنے ایمان اور ایمانی قوت کو مضبوط کرو، اور دشمنوں کے دلوں میں اپنا رعب بیٹھانے کے لیے موجودہ دور میں کار آمد دفاعی طاقت بھی حاصل کرو، یہ فرض ہے" وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ "
ترجمہ:اور(مسلمانو! )جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے(موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں ابھی تم نہیں جانتے،(مگر) اللہ انہیں جانتا ہے۔
اس آیت کی تشریح میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک ابدی حکم ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی دفاعی طاقت جمع کرنے کا اہتمام کرے۔قرآن کریم نے "طاقت" کا عام لفظ استعمال کرکے بتادیا ہے کہ جنگ کی تیاری کسی ایک قسم کے ہتھیار پر موقوف نہیں ؛بلکہ جس وقت جس قسم کی دفاعی قوت کار آمد ہو اس وقت اسی طاقت کا حصول مسلمانوں کا فریضہ ہے۔
ہمارے پاس ایمان کا جو قیمتی پھول ہے اسے بچانے کی تدبیر کرنی ہوگی اس پھول کی حفاظت کے لیے اللہ نے "واعدوا لھم ماستطعتم" کا جو کانٹا ہمیں دیا تھا اور جو "خوئے حریری" میں بدل گیا ہے اسے پھر سے کانٹے کی صفت میں لانا ہوگا تبھی خار و گل میں فرق ہوگا ورنہ صرف ہم نام کے مسلمان رہ جائیں گے اور یوں ہی مارے کاٹے جاتے رہیں گے۔۔۔ایسے وقت میں صرف دعا پر بھروسہ کر کے ایک کونے میں بیٹھ جانا اور یہ سمجھنا کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا غلط ہے ۔۔۔لیکن دعا کو بالکل فراموش کردینا بھی درست نہیں ۔۔۔بین بین اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔۔۔۔دعا کے ساتھ ساتھ مصائب کا مقابلہ کرنے کی کارگر تدبیریں بھی اختیار کرنی چاہیے۔۔۔

تمیزِ خار و گل سے آشکارا ☆ نسیمِ صبح کی روشن کی ضمیری
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے ☆ اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری

اور امت کے قائدین کی قیادت کا جو مسئلہ ہے اس کے ذمے دار قائدین نہیں ہیں؛ بلکہ قصور وار ہم ہی ہیں ۔۔۔اگر امت کا ہر ہر فرد اس بیماری سے اپنے آپ کو بچالے جس کا حدیث میں تذکرہ ہے تو اللہ تعالی ان شاء اللہ ہمیں بہتر قائد بھی عطا فرمادے گا۔۔۔ورنہ اِس کمزور ایمان کے ساتھ اور دنیا کی محبت اور موت سے گھبرانے والے دل کے ساتھ ہماری قیادت کو اگر "صلاح الدین ایوبی" بھی آجائیں تو وہ بھی صرف جلسے کراتے رہ جائیں گے !
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى * قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا * قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى۔
ترجمہ:اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا اسے(دنیا میں) بڑی تنگ زندگی ملے گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے، وہ کہے گا:"یارب! تونے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا، حالانکہ میں تو آنکھوں والا تھا؟ "اللہ کہے گا:"اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں مگر تونے بھلادیا اور آج اسی طرح تجھے بھلا دیا جائے گا۔
ہم قرآن کی اس آیت میں غور کریں کہیں اس لیے تو ہماری یہ حالت نہیں؟؟؟؟