ہندوستان نظم

 ہے ہندوستان میری جان مجھ کو جاں سے پیارا ہے 

شہیدوں نے اسے اپنا لہو دے کر سنوارا ہے


  بلند کہسار ، بہتی ندیوں اور زرخیز گیتی سے

 عجب سی دل کشی دے کر اسے رب نے نکھارا ہے


 کبھی دنیا کے نقشے میں اسے دیکھو تو لگتا ہے 

ہزاروں تاروں کی جھرمٹ میں اک روشن ستارہ ہے 


یہاں ہندو مسلماں سکھ عیسائی مل کے رہتے ہیں 

مثالی ساری دنیا میں یہاں کا بھائی چارہ ہے

 

ہمالے کی بلندی ، آب رود گنگ کی لہریں 

قطب مینار ، حسن تاج نے اس کو سنوارا ہے


 ہمیں الزام مت دو ہم بھی اس مٹی سے اٹھے ہیں

 ہے جتنا حق تمہارا اس پہ اتنا ہی ہمارا ہے

 

ہراول ہی رہے ہم سر بکف سینہ سپر ہوکر 

مدد کے واسطے اس نے ہمیں جب بھی پکارا ہے


 تمہیں جانا ہے جاؤ ہم یہیں پر جان دے دیں گے

 وطن کو چھوڑنا بالکل نہیں ہم کو گوارا ہے 


 ہزاروں کوششیں دشمن کی سب بے کار جائیں گی

 خدا کا اے فراغانی تجھے جب تک سہارا ہے

 

مرزا فراغانی