تعزیہ داری و ماتم کی حقیقت

ومن أضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اللہ۔۔۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کی شکل میں ایک دستور الحیاۃ عطا فرمایا ہے۔۔راہ حق پر چلنے اور ثابت قدم رہنے کے لیے اس دستور پر عمل کرناہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔۔جس نے اس دستور الحیاۃ سے ہٹ کر کوئی دوسرا دستور اپنایا وہ گمراہ ہوا۔۔
دنیا میں مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں ان میں دوسرے اصول و قواعد کو لے کر چاہے جتنا اختلاف ہوا ہو لیکن ایک اصول میں سب کو متفق ہونا پڑے گا وہ اصول ہے’’قرآن وحدیث یعنی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر عمل اور نافرمانی سے گریز‘‘جو بھی اس اصول کی حد کو پھلانگے گا وہ اپنے آپ کو کتنا ہی مسلمان ثابت کرے ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہوگا۔۔۔
اللہ تعالی نے اس امت کو ’’امت وسط‘‘یعنی اعتدال والی امت سے موسوم کیا ہے(وکذلک جعلناکم أمۃ وسطا)کیونکہ اللہ تعالی کو اعتدال پسند ہے اور وہ اپنے دین میں اعتدال ہی دیکھنا چاہتا ہے۔۔
یہ محرم کا مہینہ ہے ۔۔۔اس مہینے میں جتنی بھی خرافات ہوتی ہیں وہ نہ تو قرآن وحدیث سے ثابت ہیں اور نہ اکابرین امت نے ایسا کیا ہے۔۔۔جو دین بانسری بجانے سے بھی منع کرتا ہے وہ ڈھول تاشے، گانے بجانے، تعزیہ، سینہ کوبی، علم اور سبیل وغیرہ میں ہنگامہ کرکے سارے شہر کو سر پہ اٹھا لینے کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟۔۔۔
علما نے لکھا ہے کہ یہ سارے امور بدعت و ناجائز ہیں اور روافض کا شعار ہیں اس لیے ان میں شرکت ناجائز ہے۔۔۔بعض نے تو شرک کا خطرہ بھی بتایا ہے۔۔
اس لیے مسلمانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی جگہوں پر جہاں تعزیہ کا جلوس نکلتا ہو خود بھی نہ جائیں اور اپنے بچوں، اعزہ اقارب اور دوستوں کو بھی ایسی جگہ جانے اور ان میں شرکت کرنے کا گناہ بتاکر روکیں۔۔ورنہ خطرہ ہے کہ حدیث’’من کثر سواد قوم فھو منھم ‘‘جس نے کسی قوم کی (تقریب یا رسم ورواج میں شریک ہوکر اس کی)اکثریت میں اضافہ کیا تو وہ انہیں میں شمار ہوگا۔کی رُو سے شرکت کرنے والے فاسق وفاجر نہ لکھ دیے جائیں ۔۔۔اللہ بچائے!
شریعت نے کسی کی وفات پر نوحہ کرنے اور گریبان پھاڑ کر رونے چلانے سے منع کیا ہے۔۔خود سوچیئے کہ اگر ماتم کرنا جائز ہوتا تو یہ سلسلہ نبی ﷺ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے فورا بعد سے شروع ہوجانا چاہیے تھا لیکن کسی بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ آپﷺ کے بعد کسی صحابی نے ماتم کیا ہو۔۔
احادیث میں ماتم ونوحہ کرنے پر بڑی وعیدیں آئیں ہیں:
بخاری میں ہے’’لیس منا من لطم الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاہلیہ‘‘جس نے منہ پیٹا ،گریبان چاک کیااور زمانہءجاہلیت جیسے بین کیے وہ ہم میں سے نہیں۔
’’شریعت اسلام میں حادثہء کربلا کی یادگار قائم رہنے کی بابت کوئی ہدایت موجود نہیں اور نہ حضرات صحابہ وتابعین نے واقعہء کربلا کی بنا پر عاشورا میں کوئی تقریب کسی قسم کی قائم کی۔۔رفتہ رفتہ عہد رسالت سے جتنی دوری ہوتی گئی جہاں اور بہت سی رسوم،بیرونی اثرات کی بنا پر مسلمانوں میں شامل ہوگئیں وہیں محرم کے نام سے بھی ایک خاص تقریب کا اضافہ ہوگیا ۔۔۔احادیث نبوی،آثارصحابہ،اقوال سلف صالحین کہیں سے اس رواج کا پتہ تین ساڑھے تین سو سال تک کے زمانے میں نہیں چلتا۔۔۔البتہ یہ واقعہ تاریخوں میں درج ہے کہ ایک عباسی خلیفہ کے ایک مشہور ذی اثر شیعی وزیر معزالدولہ نے سنہ۳۵۲ھ میں شہادت امام حسین کی یادگار منانے کے لیے یوم عاشورا کو مقرر کردیا۔۔اسی وزیر کے حکم سے اسی سنہ میں جامع مسجد بغداد پر صحابہء کرام پر (نعوذ باللہ)لعنت لکھی گئی۔۔۔۔لہذا اہل السنۃ مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دسویں محرم کو بطور ماتم قرار دینا نہ شریعت میں اس کا کوئی حکم ہے اور نہ ان کے ہاں کے کسی بزرگ کے حکم کی تعمیل ہے؛ بلکہ یہ ایجاد ایک شیعی وزیر سلطنت کے دماغ کی ہے۔۔
اودھ میں شیعی سلطنت چونکہ عرصے تک قائم رہی اس لیے قدرتا یہاں کے مسلمانوں کے تمدن ومعاشرت میں شیعیت کے اجزا بکثرت شامل ہوئے اور تعزیہ داری کا رواج بھی یہاں بکثرت پھیل گیا۔۔۔کوئی دستور جب پرانا ہوجاتا ہے تو عوام اسے اپنے مذہب واعتقاد کا جزء سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔یہی صورت رسم تعزیہ داری سے متعلق بھی ہے۔۔۔جن آبادیوں میں صحیح مذہبی تعلیم نہیں پھیلی ہے اور لوگ شریعت اسلام کی صحیح تعلیم سے ناواقف ہیں وہاں قدرتا یہ رواج سختی کے ساتھ پھیلا ہوا ہے‘‘۔بحوالہ رسومات محرم
مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی اپنی کتاب تاریخ اسلام جلد سوم صفحہ 929 پر لکھتے ہیں کہ:
"سنہ ٣٥٢ ہجری کے شروع میں ابن بویہ (معزالدولہ)نے حکم دیا کہ ١٠ محرم کو امام حسین کی شہادت کے غم میں تمام دوکانیں بند کردی جائیں بیع وشرابالکل موقوف رہے ۔شہرودیہات کے تمام لوگ ماتمی لباس پہنیں اور اعلانیہ نوحہ کریں عورتیں اپنے بال کھول کر ،چہروں کو سیاہ کئے ہوئے ،کپڑوں کو پھاڑے ہوئے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیہ پڑھتی ہوئی ،منہ نوچتی اور سینہ کوبی کرتی ہوئی نکلیں ۔شیعوں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی مگر اہل سنت دم بخود اور خاموش رہے کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی ۔آئندہ سال ٣٥٣ہجری میں پھر اسی حکم کا اعادہ کیا گیا اور سنیوں میں فساد برپا ہوا۔بہت بڑی خون ریزی ہوئی اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیر عمل لانا شروع کر دیا اور آج تک اسی کا رواج ہندوستان میں اکثر سنی لوگ بھی تعزیئے بناتے ہیں"۔تاریخ اسلام
ان تاریخی حقائق پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ تعزیہ داری کی بنیاد حُبِّ حسین نہیں بلکہ بغض صحابہ ہے... ان تعزیوں میں جو قصیدے پڑھے جاتے ہیں وہ خاص طور سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پر تبرّے اور ان کی ہجو پر مشتمل ہوتے ہیں... اسی کے سدباب کے لیے مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی اور ان کے رفقا نے مدح صحابہ جلوس کا آغاز کیا تھا... جو آج بھی حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی دامت برکاتھم کی نگرانی میں جاری ہے تاکہ اہل السنہ مسلمانوں کو ایسی مجلسوں میں جانے سے روکا جاسکے اور ان کے دلوں میں صحابہ کی محبت کو باقی رکھا جاسکے... یہ جلوس چونکہ بدعت کا مقابلہ کرنے کے لیے اور مسلمانوں کو گناہ سے اور ان کے عقائد کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے نکالا جاتا ہے اس لیے یہ بدعت نہیں ہوگا... یہ بھی باطل سے مقابلہ کرنے کی ایک صورت ہے!

4 comments:

  1. بہت عمدہ اور معلوماتی مضمون ہے۔ ماشاء اللہ بہت بہت مبارک ہو ۔

    ReplyDelete
  2. بہت اچھا مواد اکھٹا کیا ہے فجزا کم اللہ خیرا ماشاءاللہ

    ReplyDelete
  3. ماشاءاللہ بہت خوب

    ReplyDelete