ہمارا سب سے بڑا المیہ۔۔۔ہماری بزدلی ہے۔۔۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ ہم یا تو خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔۔۔ہمارے آس پاس کیا ہورہا ہے اس کی ہمیں خبر نہیں ہے یا ہمارے دل اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ ہمارے آس پاس جو کچھ بھی ہورہا ہے اس پر ہم تڑپنا نہیں جانتے ہیں۔۔۔یا سب کچھ ہوتا دیکھ کر بھی خاموش اس لیے ہیں کہ مصیبت ہم پر تھوڑے نازل ہوئی ہے ۔۔۔جب ہم پر آئے گی تو دیکھ لیں گے!!!
اگر ایسا ہے -خدا نہ کرے- تو ہم بے حس ہوگئے ہیں ہمارے لیے زمین کے اوپر کی جگہ سے اچھی جگہ زمین کے نیچے ہے۔۔۔
دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت نے ہمیں بزدل بنادیا ہے۔۔۔آج مسلمانوں کی جتنی تعداد ہے ۔۔۔جتنے اسلامی ممالک ہیں پہلے اتنے نہ تھے مگر پھر بھی مسلمانوں کا ایک رعب و دبدبہ تھا ۔۔۔ دشمنوں کے پاس سامانِ جنگ کی کثرت کے باوجود ان کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ آنکھ اٹھاکر بھی مسلم ممالک کی طرف دیکھ لیں۔۔۔آج مسلمانوں کی اتنی کثرت کے باوجود ہر طرف سے ان پر مظالم کیوں ڈھائے جارہے ہیں؟ ۔۔۔۔جواب ہے ۔۔۔اور یہ کسی دانشور ، مفتی یا مفکر کا نہیں ہے ۔۔۔بلکہ ایسی شخصیت کا ہے جس کے جواب کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا۔۔۔کیا جواب ہے اور اسے کس نے دیا ہے دیکھیے:
: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يُوشِكُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمُ الأُمَمُ مِنْ كُلِّ أُفُقٍ كَمَا تَتَدَاعَى الأَكَلَةُ عَلَى قَصْعَتِهَا ، قُلْنَا : مِنْ قِلَّةٍ بِنَا يَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ : لا ، أَنْتُم يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ ، وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ ، يَنْزَعُ اللَّهُ الْمَهَابَةَ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّكُمْ وَيَجْعَلُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ ، قِيلَ : وَمَا الْوَهَنُ ؟ قَالَ : حُبُّ الْحَيَاةِ وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ "
آج مسلمانوں کی جو صورتِ حال ہے اور کثرت کے باوجود ہر طرف مارے کاٹے جارہے ہیں اس کی وجہ جب صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے دریافت کی تو آپ نے فرمایا تھا کہ وہ کثرت کے باوجود ہر طرف مارے کاٹے اس لیے جائیں گے کہ انہیں دنیا سے محبت ہوجائے گی اور موت کو ناپسند کرنے لگیں گے۔۔۔
اگر ہمیں دنیا میں عزت کے ساتھ بے خوف ہوکر جینا ہے تو دشمنوں کے دلوں میں اپنا خوف بِٹھانا پڑے گا، لیکن اس کے لیے مار کاٹ ضروری نہیں بس اس کا احساس دلادینا کافی ہوگا کہ ہم مقابلہ کرنے اور دشمنوں کو نقصان پہنچانے کی طاقت اور ہمت رکھتے ہیں ۔۔۔ضرورت پڑی تو استعمال بھی کرسکتے ہیں۔۔۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اسی کا احترام کرتی ہے جس سے نفع پہنچنے کی امید یا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔۔۔جس سے نہ کوئی نفع پہنچتا ہو نہ نقصان اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔۔۔چیونٹی ہی کو لے لیجیے۔۔۔کتنا چھوٹا جانور ہے لیکن اگر بستر میں کہیں نظر آکر چھپ جائے تو نیند حرام کردیتی ہے۔۔۔کیوں؟ ۔۔۔اس لیے کہ وہ کاٹتی ہے ۔۔۔۔بچھو ڈنک مارتا ہے سانپ ڈستا ہے ۔۔۔اس لیے ان سب سے ڈرا جاتا ہے ۔۔۔۔یہ ہے انسانی فطرت!
اب ہم خود کو دیکھیں ہم صرف نفع اٹھانے کی چیز رہ گئے ہیں ۔۔۔"یُوز اینڈ تھرو" کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں بس ۔۔۔ہماری کوئی قیمت نہیں ہے اور نہ ہی ہماری کوئی آواز ہے ۔۔۔ہماری آواز تو اتنی پست ہوگئ ہے کہ اس کی باز گشت بھی سنائی نہیں دیتی۔۔۔موت سے فرار نے ہمیں موت سے پہلے ہزاروں دفعہ موت دیا ہے۔۔۔
دنیا سے محبت اور موت کو ناپسند کرنا ضعفِ ایمان کی دلیل ہے ۔۔۔اور ضعفِ ایمان سے روح میں کمزوری آتی ہے اور روح کمزور ہوجائے تو انسانی جسم بھی بے کار ہوجاتا ہے جسے ہر طاقت والا ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہتا ہے۔۔۔
جاگو جاگو۔۔۔اب بھی وقت ہے مسلمانو! کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر عمل کرو، دنیا کی محبت دل سے نکال دو، آخرت کی فکر کرو، عملِ صالح سے اپنے ایمان اور ایمانی قوت کو مضبوط کرو، اور دشمنوں کے دلوں میں اپنا رعب بیٹھانے کے لیے موجودہ دور میں کار آمد دفاعی طاقت بھی حاصل کرو، یہ فرض ہے" وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ "
ترجمہ:اور(مسلمانو! )جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے(موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں ابھی تم نہیں جانتے،(مگر) اللہ انہیں جانتا ہے۔
اس آیت کی تشریح میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک ابدی حکم ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی دفاعی طاقت جمع کرنے کا اہتمام کرے۔قرآن کریم نے "طاقت" کا عام لفظ استعمال کرکے بتادیا ہے کہ جنگ کی تیاری کسی ایک قسم کے ہتھیار پر موقوف نہیں ؛بلکہ جس وقت جس قسم کی دفاعی قوت کار آمد ہو اس وقت اسی طاقت کا حصول مسلمانوں کا فریضہ ہے۔
ہمارے پاس ایمان کا جو قیمتی پھول ہے اسے بچانے کی تدبیر کرنی ہوگی اس پھول کی حفاظت کے لیے اللہ نے "واعدوا لھم ماستطعتم" کا جو کانٹا ہمیں دیا تھا اور جو "خوئے حریری" میں بدل گیا ہے اسے پھر سے کانٹے کی صفت میں لانا ہوگا تبھی خار و گل میں فرق ہوگا ورنہ صرف ہم نام کے مسلمان رہ جائیں گے اور یوں ہی مارے کاٹے جاتے رہیں گے۔۔۔ایسے وقت میں صرف دعا پر بھروسہ کر کے ایک کونے میں بیٹھ جانا اور یہ سمجھنا کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا غلط ہے ۔۔۔لیکن دعا کو بالکل فراموش کردینا بھی درست نہیں ۔۔۔بین بین اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔۔۔۔دعا کے ساتھ ساتھ مصائب کا مقابلہ کرنے کی کارگر تدبیریں بھی اختیار کرنی چاہیے۔۔۔
تمیزِ خار و گل سے آشکارا ☆ نسیمِ صبح کی روشن کی ضمیری
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے ☆ اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری
اور امت کے قائدین کی قیادت کا جو مسئلہ ہے اس کے ذمے دار قائدین نہیں ہیں؛ بلکہ قصور وار ہم ہی ہیں ۔۔۔اگر امت کا ہر ہر فرد اس بیماری سے اپنے آپ کو بچالے جس کا حدیث میں تذکرہ ہے تو اللہ تعالی ان شاء اللہ ہمیں بہتر قائد بھی عطا فرمادے گا۔۔۔ورنہ اِس کمزور ایمان کے ساتھ اور دنیا کی محبت اور موت سے گھبرانے والے دل کے ساتھ ہماری قیادت کو اگر "صلاح الدین ایوبی" بھی آجائیں تو وہ بھی صرف جلسے کراتے رہ جائیں گے !
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى * قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا * قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى۔
ترجمہ:اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا اسے(دنیا میں) بڑی تنگ زندگی ملے گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے، وہ کہے گا:"یارب! تونے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا، حالانکہ میں تو آنکھوں والا تھا؟ "اللہ کہے گا:"اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں مگر تونے بھلادیا اور آج اسی طرح تجھے بھلا دیا جائے گا۔
ہم قرآن کی اس آیت میں غور کریں کہیں اس لیے تو ہماری یہ حالت نہیں؟؟؟؟
Thank you very much for this useful article. I like it.
ReplyDeleteفساتين زفاف مسلم