سحری کی دعا(لفظ "غد" کا مسئلہ)

سوشل میڈیا پر آج کل سحری کی دعا میں مذکور لفظ "غد" کو لے کر خوب اعتراض کیا جارہا ہے اسی کو سامنے رکھ کر یہ تحریر لکھی گئی ہے!

روزے کی نیت کے سلسلے میں غیر مقلدین ہم پر دو اعتراض کرتے ہیں :
۱)ہم جن الفاظ سے نیت کرتے ہیں وہ احادیث سے ثابت نہیں ،بلکہ بدعت ہے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ ہماری کسی کتاب میں بھی یہ لکھا ہوا دکھا دیں کہ نیت کے کچھ خاص الفاظ حدیث سے ثابت ہیں ، یا کسی خاص دعا کو احناف لازم قرار دیتے ہیں؛ بلکہ جہاں بھی دیکھیں گے یہی ملے گا کہ روزہ کی نیت کا دل میں کرلینا کافی ہے زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ، ہاں زبان سے نیت کرلینا بہتر ہے، اور اسی وجہ سے(یعنی زبان سے نیت کرنے کے بہتر ہونے کی وجہ سے) وہ خاص دعا مشہور ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے ، لیکن معترضین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں حنفیہ کا کچھ قصور نہیں بلکہ قصور تو ان کمپنیوں، ہوٹلوں، آفسوں اوردکانوں کا ہے جو رمضان کارڈ پر اس دعا کو لکھ کر عام کر رہے ہیں(ان میں خود غیر مقلدین بھی شامل ہیں)اور ناخواندہ عوام اسے ضروری سمجھ کر اس پر عمل کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ دعا پڑھ کر روزہ صحیح ہو جائے گا؟ جواب:ہاں؛ کیونکہ روزے کیلئے نیت کا ہونا ضروری ہے اور اس دعا کی وجہ سے نیت پا لی گئی؛ لیکن نیت کرنے والے کو یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ یہ الفاظ حدیث سے ثابت نہیں ؛لیکن ہم یہ دعا اس لیے پڑھ لیتے ہیں ہمیں عربی آتی نہیں ،اور اردو میں یہ کہنے سے کہ’’میں اللہ تعالیٰ کےلئے رمضان کاروزہ رکھتا ہوں‘‘ انہیں الفاظ کو عربی میں ’’نویت ان اصوم غداً للّٰہ تعالی من شہر رمضان‘‘ کہہ لینے کو بہتر سمجھتے ہیں۔
جب ہم نیت کی دعا کو لازم وضروری قرار نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی اردو میں بھی نیت کرلے تو اس کا روزہ ہو جائے گا تو پھر بدعت کہاں!!؟
بدعت تو اسے کہتے ہیں کہ کسی چیز کو جو دین سے نہ ہو اسے دین سمجھ کر لازم کر لیا جائے۔
۲)دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ ہمارا روزہ صحیح نہیں ہوتا ؛کیونکہ ہم جس دن کا روزہ رکھتے ہیں اس سے اگلے دن کے روزے کی نیت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ نیت کی دعا میں لفظ ’’غد‘‘ ہے جس کا معنی( ان کے نزدیک) صرف ’’آئندہ کل‘‘ہے، اور آئندہ کل کی نیت کرنے سے آج کا روزہ کیسے ادا ہوگا؟
افسوس ان کی عقلوں پر اور عربیت سے ان کی نا واقفیت پر!انہیں’’ غدا‘‘ کے محل استعمال اور اس کے معنی کا ہی پتہ نہیں اور دعوی خود سے قرآن و حدیث سمجھنے کا!!
یہ بیچارے سمجھتے ہیں کہ ایک لفظ کا ایک ہی معنی ہوتا ہے ، اور وہ بھی وہ جو انہیں باپ دادا سے وراثت میں ملا ہوتا ہے ،لغت تو یہ دیکھ نہیں سکتے؛ کیونکہ اس کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے اگر تھوڑا بہت جان لیا تو اردو -عربی اور عربی-اردو لغت دیکھ لیا ؛لیکن اس میں وہ سارے معانی کہاں ملنے والے جو عربی کی بڑی بڑی کتب لغات میں ملتے ہیں اور عربوں کے یہاں معتبر مانے جاتے ہیں، کہاں عربی لغت کی ۴۰،۴۵ جلدیں اورکہاں اردو کی مصباح اللغات، القاموس الوحید وغیرہ جو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو جلدوں میں ہیں ،اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ جو باتیں ۲۵،۵۰ جلدوں میں ہیں وہ۱،۲ جلدوں میں کیسے آسکتی ہیں؟ اب اگر کوئی مصباح اللغات دیکھ کر یا باپ دادا سے وراثت میں ملے ہوئے معنی کو لیکر اعتراض کرتا ہے تو اسے کیا کہیں گے ؟یقیناً باؤلا کہیں گے۔
دیکھیے معترضین نے جس لفظ (غد) کو لے کر اعتراض کیا ہے اس کے وہی ایک معنی نہیں ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں یعنی(کل)؛بلکہ اس کے اور بھی معنی ہیں جن کا استعمال کلام عرب بلکہ خود قرآن میں بھی ہوا ہے۔
لغت کی ایک بڑی کتاب ’’النہایہ‘‘ میں حضرت عبدالمطلب کا ایک شعر ذکر کیا گیا ہے:
لایغلبن صلیبہم-ومحالہم غدواًمحالک
اس شعر کو ذکر کرنے کے بعد صاحب نہایہ کہتے ہیں کہ عبدالمطلب نے ’’غد‘‘ سے وہ کل مراد نہیں لیا ہے جو آج کے بعد آنے والا ہے ؛ بلکہ قریبی زمانے کو مراد لیا ہے(اور وہ قریبی زمانہ آج بھی ہو سکتا ہے اور کل کے بعد پرسوں، نرسوں بھی ہو سکتا ہے)۔
اسی طرح قرآن میں ہے:
’’ولا تقولن لشیئی إنی فاعلٌ ذلک غدا إلا أن  یشاء اللہ ‘‘
(ترجمہ:اور (اے پیغمبر!)کسی بھی کام کے بارے میں کبھی یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کرلوں گا، ہاں (یہ کہو) کہ اللہ چاہے گا تو(کرلوں گا)۔
اس میں بھی ’’غد‘‘ سے بعینہ کل مراد نہیں ہے ورنہ مطلب میں خلل آتا ہے ؛کیونکہ مقصود صرف کل کے کام کے لیے ان شاءاللہ کہنا نہیں ہے؛ بلکہ اگر آج ہی کوئی کام کرنا ہے تو بھی ان شاءاللہ کہنا ہے اور پرسوں، نرسوں کوئی کام کرنا ہے تو بھی ان شاءاللہ ضروری ہے، اگر وہاں اردو لغات والا معنی لیا گیا تو مطلب ہوگا کہ اگر کل کے دن کوئی کام کرنے کا ارادہ ہو تو ان شاءاللہ کہنا ضروری ہوگا دوسرے دن میں نہیں ۔
اسی طرح سورہ حشر میں ہے
’’ولتنظر نفس ما قدمت لغد‘‘
(ہرشخص یہ دیکھے کہ اس نے کل (قیامت) کیلئے کیا آگے بھیجا ہے)۔
اس میں بھی "غد" سے مراد آئندہ کل نہیں ہے بلکہ قیامت کا دن مراد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اب غیر مقلدین کیا کہیں گے!!!؟؟؟؟
بھائیوں غیر مقلدین! تحقیق کے لیے دیکھیے ’’اللسان‘‘’’تاج العروس‘‘ ’’المصباح‘‘عربی والی اور’’ مجمع البحار‘‘،اگر خود سے نہ پڑھ سکیں تو کسی قاسمی سے پڑھوالیں۔
یہ تو تھی ان کی عربیت سے ناواقفیت کی دلیل، ساتھ ساتھ یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ان کا تفسیر سے بھی کوئی تعلق نہیں ورنہ کیا بات ہے کہ انہیں قرآن میں آئے لفظ’’ غد‘‘ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔ایک اور چیز ہے جس سے یہ ناواقف ہیں اور جسے عربی زبان کی کنجی کہا جاتا ہے، وہ ہے نحو وصرف یعنی عربی کے گرامر، اس میں ایک چیز ہے معرفہ نکرہ ، اس کے استعمال سے بھی معنی بدل جاتے ہیں ؛چنانچہ اسی لفظ ’’غد‘‘ کو لے لیجیے اگر اسے معرفہ یعنی الف لام کے ساتھ (الغد) استعمال کرتے ہیں تو عموماً اس کا معنی ’’آئندہ کل‘‘ ہوتا ہے، کبھی کبھی قرینہ کی وجہ سےدوسرے معنیٰ مراد لے لیئے جاتے ہیں جیسے اہل عرب کہتے ہیں ’’سیکون لک الغد الافضل‘‘ اس میں’’ الغد الافضل‘‘ سے مراد شاندار مستقبل ہے اور اس کا قرینہ لام اختصاص ہے۔ اور اگر نکرہ(غد) استعمال کرتے ہیں تو وہی معنی مراد ہوں گے جو عبد المطلب کے شعر اور قرآن میں ہیں، اور یہی استعمال (نکرہ والا) نیت کی دعا میں بھی ہے لہٰذا وہاں بھی وہی معنی مراد ہوگا یعنی صبح صادق کے فورا بعد والا زمانہ۔

غیر مقلدین کو تو ہماری فقہ سے خدا واسطے کا بیر ہے اس لیے ہم ان کے لیے تو نہیں ۔۔۔اپنے خدا ترس بندوں کے لیے یہ لکھ رہیں ہیں کہ ہماری فقہ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ روزہ دار رمضان کے مہینے میں چاہے جس روزے کی نیت کرے:نذر کی کرے، قضاء کی کرے، یاجس دن کی کرے :پیر کے دن منگل کی کرے ،بدھ کی کرے روزہ اسی دن کا ادا ہوگا جس دن میں یہ نیت کررہا ہے۔

7 comments:

  1. Masha Allah, Allah aapko mazeed baraktein ata farmae meri bohat badi preshani ko door kr dia aapne Allah aapko apni rahmato ke saae me rkhe.
    Aameen

    ReplyDelete
  2. مقلدین اور غیر مقلدین کے ہاں غد کا کیا معنی کے واللہ اعلم لیکن آپ نے جو طنزیہ اور چیپ لہجہ اختیار کیا ہے یہ کم از کم کسی بازاری انسان کا تو ہوسکتا ہے عالم کا نہیں۔ علم کے ساتھ ساتھ کوشش کریں اخلاق بھی سیکھ لیں بھلے تھوڑے بہت کسی غیر مسلم سے کی سیکھ لیں کہ میٹھے لہجے میں تمیز سے بات کیسے کرتے ہیں۔ تم وہابی سنی سب کے سب پہنچاتے دین کا پیغام ہو اور ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہو جاہلوں کی طرح۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جناب بازاری زبان کا الزام لگانے سے پہلے ذرا اپنے خاندان کی خبر کر لیتے جو بڑے بڑے بزرگوں کو جاہل کاذب کہہ کر بولتے ہیں.ـ اس کے مقابلے یہ زبان تو اپ کی حلق سے دودھ کی طرح گزرنی چاہیے تھی ـ کوئی بھی لفظ غیر مہذّب نہیں ہے گرچہ جھوٹ کے لت والوں کو گراں گزریں ـ

      Delete
  3. شکریہ جناب بہت اچھا لکھا ہے

    ReplyDelete
  4. بہت شکریہ ـ جزاك اللّٰه

    ReplyDelete
  5. اس طرح کےلہجےسےاصلاح نہیں مگرفتنہ ضرورپھیلتاہے

    ReplyDelete
  6. معلومات تو بہت بہترین ہے لیکن حضرت تھوڑی شدت سے کام نہ لیں آپ کی تحریر ہر قسم کے لوگ پڑھتے ہیں

    ReplyDelete