ہندوستان نظم

 ہے ہندوستان میری جان مجھ کو جاں سے پیارا ہے 

شہیدوں نے اسے اپنا لہو دے کر سنوارا ہے


  بلند کہسار ، بہتی ندیوں اور زرخیز گیتی سے

 عجب سی دل کشی دے کر اسے رب نے نکھارا ہے


 کبھی دنیا کے نقشے میں اسے دیکھو تو لگتا ہے 

ہزاروں تاروں کی جھرمٹ میں اک روشن ستارہ ہے 


یہاں ہندو مسلماں سکھ عیسائی مل کے رہتے ہیں 

مثالی ساری دنیا میں یہاں کا بھائی چارہ ہے

 

ہمالے کی بلندی ، آب رود گنگ کی لہریں 

قطب مینار ، حسن تاج نے اس کو سنوارا ہے


 ہمیں الزام مت دو ہم بھی اس مٹی سے اٹھے ہیں

 ہے جتنا حق تمہارا اس پہ اتنا ہی ہمارا ہے

 

ہراول ہی رہے ہم سر بکف سینہ سپر ہوکر 

مدد کے واسطے اس نے ہمیں جب بھی پکارا ہے


 تمہیں جانا ہے جاؤ ہم یہیں پر جان دے دیں گے

 وطن کو چھوڑنا بالکل نہیں ہم کو گوارا ہے 


 ہزاروں کوششیں دشمن کی سب بے کار جائیں گی

 خدا کا اے فراغانی تجھے جب تک سہارا ہے

 

مرزا فراغانی

شہر مدینہ

 بادیدہ پرنم،ہوں چلا شہرِ مدینہ
پہونچادے مرے مولا مجھے شہرِ مدینہ
اعمال مرے ایسے کچھ اچھے نہیں لیکن
امّید کرم لے کے چلا شہرِ مدینہ
ہے رختِ سفر عشق،تو ہے شوق سواری
لرزیدہ قدم سے ہوں چلا شہرِ مدینہ
رک جاؤ فرشتو!نہ ابھی چھیڑو مجھے تم
چلنے دو ذرا تیز مجھے شہرِ مدینہ
مدت کی تمنا مری ہوجائے گی پوری
پہونچے گا مرا قافلہ جب شہرِ مدینہ
اے جذبہء دل اب تو ذرا صبر تُو کر لے
کچھ پل میں ہی آجائے گا بس شہرِ مدینہ
بے تاب ہوں اتنا کہ ہر اک آن کسی سے
کہتا ہوں نظر آئے گا کب شہرِ مدینہ ؟
شاید کہ رحم کردے خدا ان کے ہی صدقے
اس حوصلے سے میں ہوں چلا شہرِ مدینہ
سوجان سے قربان میں اس غیبی ندا پہ
"لو دیکھ لو،آجاؤ،یہ ہے شہرِ مدینہ"
رحمت خدا کی برسے،برستی رہے سدا
محفوظ رکھے میرا خدا شہرِ مدینہ
میری ہے کیا  اوقات بھلا؟نعت لکھوں میں!
ہر شعر میں بس کہتا رہا "شہرِ مدینہ"
x
x

شیطانی مفتی

*اللہ تعالی نے اپنے کچھ مخصوص بندوں کو عقل سلیم اور فہم سلیم عطا فرما کر قرآن و حدیث سے مسائل کے استنباط کی صلاحیت عطا کی تو دوسرے مقبول بندوں کو ان مسائل کی باریکیاں سمجھنے کی صلاحیت ودیعت فرما کر کھرے اور کھوٹے میں فرق کرنے کا ملکہ دیا۔۔جب کہ کچھ بدنصیبوں کے دلوں ، آنکھوں اور کانوں پر مہر لگا دی گئی جس کی وجہ سے وہ کتاب و سنت سے مستنبط مسائل کی گہرائی تک پہنچ سکتے ہیں نہ قرآن و حدیث پڑھ کر خود کچھ سمجھ سکتے ہیں ۔۔بس شیطان جو خرافات ان کے دل و دماغ پر الہام کرتا ہے اسی کو علم یقین جانتے ہیں اور اسی کو لوگوں میں عام کرتے ہیں جسے وہ "رائے" کا نام دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ "شیطانی فتوی" ہوتا ہے جس کی آڑ میں وہ "اسلامی فتووں" سے مسلمانوں کو بدظن کر دینا چاہتے ہیں۔۔۔یہی لوگ لبرل یعنی (شیطانی مفتی) کہلاتے ہیں!*
®منکووووووول™

"انشاء اللہ" یا "ان شاء اللہ"؟؟؟؟؟

سوشل میڈیا پر "انشاءاللہ" کو لے کر ایک تحریر گردش کر رہی ہے لکھنے والے نے کہاں تک صحیح لکھا ہے اس کا ہم نے جائزہ لیا ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

*ایک لفظی غلطی جسکی درستگی لازم هے*

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ " ﻟﮑﮭﺎ،
ﺗﻮ کسی ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ:
ﻟﻔﻆ "ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ" ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ،
ﺑﻠﮑﮧ یه
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ…
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮا-

ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﺳﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ،
ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-

ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯼ،
ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
"ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭﮞ گا"

خود سے ﺗﺤﻘﯿﻖ کی
تو ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ
ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔

ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
"ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ "

ﻟﯿﮑﻦ
ﺍﮔﺮ " ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ مطلب بنتا هے
"ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ" ﻧﻌﻮﺫﺑﺎﺍﻟﻠﮧ

ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﻮ ﻟﻔﻆ "ﺍﻟﻠﮧ "ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-

ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے...

1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ
سورة ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ 78

2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﮧَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ.
سورة ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ 20

3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎﻫﻦَّ ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً
سورة ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ 35

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﯿﮟ " ﺍﻟﻠﮧ " ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ.
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔۔

ﻟﻔﻆ
*"ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*

" ﺍﻥ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ "
"ﺷﺎﺀ "ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﭼﺎﮨﺎ"
"ﺍﻟﻠﮧ "ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ " ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ "

ﺗﻮ ثابت هوا که ﻟﻔﻆ
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ۔۔

1. ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ
سورة ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ 70

2. ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ
سورة ﯾﻮﺳﻒ 99

3. ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ
سورة ﺍﻟﮑﮩﻒ 69

4. ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ
سورة ﺍﻟﻘﺼﺎﺹ 27

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﻟﻔﻆ
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*

انگریزی میں یوں لکھ جاسکتا ھے..
*"In Sha Allah"*

صدقه جاریه کے طور پر
اس معلومات کے فروغ کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی درخواست ھے..

جزاک الله

_____________________________________

                                  جواب

درست طریقہ تو "ان شاء اللہ" لکھنا ہے کیوں کہ یہ عربی کا جملہ ہے اور عربی میں "ان" حرف شرطیہ دوسرے کلمات سے ہمیشہ جدا کر کے لکھا جاتا ہے ملا کر لکھنا عربی رسم الخط کے خلاف ہے ....

 اور رہا معنی کا سوال تو ان شاء اللہ کا معنی ہے "اگر اللہ نے چاہا " اور انشاء اللہ کا معنی "اللہ کا (کسی چیز کو) پیدا کرنا.... "انشاء" فعل انشا ینشئ کا مصدر ہے اور جب تک کوئی قرینہ نہ پایا جائے مصدر کا مفعولی ترجمہ نہیں کیا جاتا اس لیے "انشاء" کا ترجمہ" اللہ کا پیدا کیا جانا" کرنا محض جہالت ہے ...

اردو میں چونکہ ان شاء اللہ کو ملاکر "انشاء اللہ " لکھنے کا رواج ہوگیا ہے لیکن اس سے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ...  "مجھ سے" کو اگر کوئی نادانی کی وجہ سے "مجھسے" لکھ دے تو انشاء اللہ کی طرح اس کا معنی بھی بدلنا چاہیے لیکن نہیں بدلتا تو معلوم ہوا کہ ان شاء اللہ کو اگر کوئی جہالت کی وجہ سے انشاء ﷲ لکھتا ہے تو معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ... اور اگر کوئی معنی کی تبدیلی پر مصر بھی ہے تو بھی ایسا معنی نہیں بنتا جس پر کفر کا فتوی ٹھونکا جائے بلکہ اس وقت بھی اللہ ہی کی ایک قدرت کی طرف اشارہ ہوتا ہے... "انشاء"کے معنی پیدا کرنا، تخلیق کرنا ہے اس کا ترجمہ "تخلیق کیا گیا" کرنا بالکل درست نہیں!

قرآن کی جتنی آیتیں پیش کی گئی ہیں سب میں "انشاء " کا ترجمہ " پیدا کرنا اور تخلیق کرنا " ہی ہے! 

اور یہ کہنا کہ لفظ "انشاء" کو اللہ کے ساتھ لکھنا بالکل غلط اور کفر ہے جہالت کی انتہا ہے۔۔۔کیونکہ قرآن میں جہاں جہاں انشاء آیا ہے اس کا فاعل اللہ ہی ہے ان تمام آیتوں میں اگر انشاء کا فاعل اللہ کے علاوہ کسی اور کو بنادیا گیا تو کفر ہوجائے گا۔۔۔

خلاصہ یہ ہے کہ "انشاء اللہ" کو کفر بتانے والا انتہائی درجہ کا جاہل تھا اسے صحیح ترجمے کا بھی علم نہیں تھا اس لیے اس کی تحریر کو لائق التفات نہ سمجھا جائے۔۔۔!

قرآن کا ایک رکوع ان قائدین و دانشوران کے نام جو مصلحت کے نام پر قوم کا بیڑا غرق کردینا چاہتے ہیں۔

سورہ نساء
(۷۱) یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ خُذُواْ حِذْرَکُمْ فَانفِرُواْ ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُواْ جَمِیعًا
ترجمہ:اے ایمان والو اپنے تحفظ کا سامان سنبھال لو اور جماعت جماعت یا اکٹھا جیسا موقع ہو سب نکل پڑو _
*1_ دفاع اور نبرد کیلئے گروہ گروہ کوچ کرنے یا اکٹھے نکل پڑنے اور جنگى وسائل و اسلحہ لیکر چلنے کا وجوب_*
یا ایّھا الذین امنوا خذوا حذرکم ''حذر'' اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے انسان خطرات کے مقابلے میں امن کى خاطر استعمال میں لاتا ہے_ مثلاً جنگى اسلحہ وغیرہ اور ''ثبات''، ''ثبة''کى جمع ہے جس کا معنى دستہ اور گروہ ہے_
مذکورہ بالا مطلب کى تائید امام باقر کے اس فرمان سے بھى ہوتى ہے جو آپ نے مذکورہ آیت کے بارے میں فرمایا: خذوا سلاحکم ... الثبات السّرایا والجمیع العسکر (5)اپنا اسلحہ اٹھالوا ... '' الثبات''سے مراد فوجى دستے ہیں اور '' الجمیع'' سے مراد لشکر ہے _
*2_ اہل ایمان کے فرائض میں سے ہے کہ وہ عسکرى آمادگى اور دشمن شناسى رکھتے ہوں_*
یا ایھا الذین امنوا خذوا حذرکم فانفروا ثبات: او انفروا جمیعاً
اکٹھے یا گروہ گروہ کوچ کا انتخاب دشمن کے ساتھ مقابلے کى کیفیت کى تحقیق و جستجو کے بعد ہوتا ہے اور اس کا لازمہ پہلے دشمن کى شناخت کرنا ہے پھر اس کا سامناکرنا ہے_
*3_ عسکرى قوتوں کو اکٹھا کرنے اور انہیں جنگ کیلئے آمادہ کرنے کیلئے نظم و ضبط برقرار کرنا ضرورى ہے_*
یا ایھا الّذین امنوا خذوا حذرکم فانفروا ثبات: او انفروا جمیعاً
عسکرى قوتوں کى تشکیل کے بارے میں فرمان الہى ایسے نظم و ضبط کے برقرار کرنے پر متفرع ہے کہ جس کے نتیجہ میں عسکرى قوتوں کو اکٹھا کر کے آمادہ دفاع کیا جاسکتاہے _
*4_ دشمن کے ساتھ نبرد و جنگ کیلئے حرکت کرنے سے پہلے جہادى قوتوں کو مکمل طور پر آمادہ کرنا ضرورى ہے_*
یا ایھا الذّین امنوا خذوا حذرکم فانفروا
فائے عاطفہ کے ساتھ ''انفروا''کا عطف، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے خود کو آمادہ ہونا چاہیئے (خذوا حذرکم) اور اسکے بعد دشمن کى طرف حرکت کرنى چاہیے_
*5_راہ خدا کے مجاہدین; انبیا (ع) ، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ہم نشین ہیں_*
فاولئک مع الذین انعم الله علیھم ... یا ایھا الذین امنوا خذوا حذرکم
*6_ جہاد کیلئے حرکت اور عسکرى تیاری، خدا و رسول(ص) کى مکمل اطاعت کى علامت ہے_*
و من یطع الله و الرّسول ... یا ایّھا الّذین امنوا خذواحذرکم فانفروا
خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کى اطاعت کو ضرورى قرار دینے کے بعد جہاد کے مسئلہ کو چھیڑنا، خدا و رسول(ص) کى اطاعت کے اہم موارد کى طرف اشارہ ہے_
*7_ جنگ و نبرد کى کیفیت اور حکمت عملى کى تعیین کرنا، مجاہد مؤمنین کے اختیار میں ہے_*
فانفروا ثبات: او انفروا جمیعاً
دشمن کى طرف حرکت کرنے کا طریقہ معین نہ کرنا، اس بات کى طرف اشارہ ہے کہ دشمنان دین کے خلاف جنگ کا طریقہ کار اور حکمت عملى کا انتخاب خود مؤمنین کے اختیار میں ہے_
______________
(۷۲) وَإِنَّ مِنکُمْ لَمَن لَّیُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْکُم مُّصِیبَۃٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیَّ إِذْ لَمْ أَکُن مَّعَہُمْ شَہِیدًا
ترجمل:تم میں ایسے لوگ بھى گھس گئے ہیں جو لوگوں کو روکیں گے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آگئی تو کہیں گے خدا نے ہم پر احسان کیا کہ ہم ان کے ساتھ حاضر نہیں تھے _
*1_زمانہ پیغمبر اکرم(ص) کے بعض مسلمانوں کا جہاد میں شرکت کے سلسلے میں سستى کا مظاہرہ کرنا_*
و ان منکم لمن لیبطئن
*2_ زمانہ پیغمبر اکرم(ص) کے بعض مسلمان، دوسرے مؤمنین کو جہاد میں شرکت کرنے سے روکتے تھے_*
و ان منکم لمن لیبطئن
راغب نے ''مفردات''میں ''لیبطئن''کو فعل متعدى لکھا ہے_
*3_ خداوند متعال کا ان لوگوں کى سرزنش کرنا جو جنگ میں شرکت کرنے سے سستى کرتے ہیں یا دوسروں کو اس سے روکتے ہیں_*
و ان منکم لمن لیبطئن
*4_ جہاد سے تخلف کرنے والے سست عناصر کى نظر میں جنگ کى مشکلات سے بچنا ایک نعمت الہى ہے_*
فان اصابتکم مصیبة قال قد انعم الله علیّ اذ لم اکن معھم شہیداً
*5_ جنگ کى مشکلات و مصائب سے بچنے کو نعمت شمار کرنا ایک ناپسندیدہ سوچ ہے_*
فان اصابتکم مصیبة قال قد انعم الله علیّ اذلم اکن معھم شہیداً
*6_ بعض لوگوں کا درپیش مصائب و مشکلات کى غلط تحلیل کرنا اور خدا وند متعال کى نعمت و غیرنعمت میں تشخیص کرنے سے عاجز ہونا_*
فان اصابتکم مصیبة قال قد انعم الله علّی
*7_ رسول خدا(ص) کے ہمراہ جنگ میں شرکت نہ کرنے اور اسکے خطرناک نتائج سے محفوظ رہنے پر خوش ہونا، شرک ہے_*
فان اصابتکم مصیبة قالوا قد انعم الله علیّ اذ لم اکن معہم شہیداً امام صادق نے اس آیت کى تفسیر میں فرمایا: ... و لو ان اہل السماء و الارض قالوا قد انعم الله علّى اذ لم اکن مع رسول الله (ص) لکانوا بذلک مشرکین ... اگر اہل زمین و آسمان یہ کہیں کہ اللہ نے ہم پر احسان کیا کہ ہم رسول اللہ (ص) کے ساتھ نہیں تھے تو وہ ایسا کہنے کى وجہ سے مشرک ہوجائیں گے ...
شرک سے مراد اسلام سے خارج ہوجانا نہیں بلکہ شیطان کى پیروى ہے جیسا کہ اصول کافى میں موجود روایت اس مطلب پر ناظر ہے_
_________
(۷۳) وَلَئِنْ أَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللہ لَیَقُولَنَّ کَأَن لَّمْ تَکُن بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُ مَوَدَّۃٌ یَا لَیتَنِی کُنتُ مَعَہُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِیمًا
اور اگر تمھیں خدائی فضل و کرم مل گیا تو اس طرح جیسے تمھارے ان کے در میان کبھى دوستى ہى نہیں تھى کہنے لگیں گے کاش ہم بھى ان کے ساتھ ہوتے اور کامیابى کى عظیم منزل پر فائز ہو جاتے _
*1_ جہاد میں فتح و کامیابى اور غنیمت حاصل ہونا، فضل الہى ہے_*
خذوا حذرکم فانفروا ... و لئن اصابکم فضل من الله
اس آیت میں ''فضل''کا مورد نظرمصداق، غنیمت اور فتح ہے_
*2_ جہاد سے تخلف کرنے والے، مجاہدین کى شکست و فتح کے مقابلے میں دوغلا موقف اختیار کرتے تھے_*
فان اصابتکم مصیبة قال قد انعم الله علیّ ... و لئن اصابکم فضل من الله لیقولنّ ... یا لیتنى کنت معھم
*3_ فتح کو دیکھ کر، مجاہدین کے ہمراہ ہونے کى آرزو کرنا اور شکست کے بعد جہاد کو ترک کرنے پر خوش ہونا، ایک ناپسندیدہ فعل و عادت ہے_*
فان اصابتکم مصیبة ... و لئن اصابکم فضل من الله ... یا لیتنى کنت معھم
*4_ شکست اور فتح کے وقت دوغلا رویہ اپنانے اور جہاد سے تخلف کرنے کا ایک سبب دنیا پرستى ہے_*
قد انعم الله علیّ اذ لم اکن معھم شہیداً ... یا لیتنى کنت معھم فافوز
جملہ ''یا لیتنى ...'' اور ''قد انعم الله ...''سے مراد یہ ہے کہ دنیا کے مال و دولت کے حصول یا اس سے محرومیت سے ہى جہاد سے تخلف کرنے والے سست عناصر کے طرز عمل کا تعین ہوتا ہے_
-5_ مجاہدین کى فتح و کامیابى کا سرچشمہ خداوند متعال ہے اور اسکى ذات اس سے پاک و منزہ ہے کہ وہ مجاہدین کو شکست سے دوچار کرے_*
فان اصابتکم مصیبة ... و لئن اصابکم فضل من الله
*6_ جہاد سے گریز کرنے والے، مجاہدین کى فتح و کامیابى کے بعد اس طرح باتیں کرتے ہیں گویا ان کا مجاہدین سے کوئی تعلق ہى نہیں ہے اور وہ جنگ و جہاد سے کسى قسم کى اطلاع نہیں رکھتے_*
و انّ منکم لمن لیبطئن ... و لئن اصابکم فضل من الله لیقولنّ کان لم تکن بینکم و بینہ مودّة
*7_ مؤمنین کا فریضہ ہے کہ وہ آپس میں دوستانہ روابط برقرار کریں_*
کان لم تکن بینکم و بینہ مودّة
*8_ جہاد سے تخلف کرنے والے لوگوں کا درپیش حوادث اور مجاہدین کے مقابلے میں، خودپسندى اور بے حسى کا مظاہرہ کرنا_*
فان اصابتکم مصیبة قد انعم الله علیّ ... و لئن اصابکم فضل من الله لیقولنّ کان لم تکن بینکم و بینہ مودّة یا لیتنى ... فافوز
*9_ جہاد سے تخلف کرنے والے لوگ، دینى معاشرے اور اس میں موجود مودّت و محبت آمیز رشتوں سے غافل ہوتے ہیں_*
و ان منکم لمن لیبطئن ... کان لم تکن بینکم و بینہ مودّة
*10_ جہاد سے تخلف کرنے والوں کا جنگى غنائم سے محروم رہ جانے پر افسوس اور حسرت کرنا_*
و لئن اصابکم فضل من الله لیقولن ... یا لیتنى کنت معھم فافوز فوزاً عظیما
*11_ دنیا طلب مسلمان، ظاہرى فتح کے ذریعے مال غنیمت کے حصول کو فوز عظیم (بڑى کامیابی) شمار کرتے ہیں_*
و لئن اصابکم فضل من الله لیقولنّ ... فافوز فوزاً عظیماً
____________
(۷۴) فَلْیُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللّہِ الَّذِینَ یَشْرُونَ الْحَیوۃَ الدُّنْیَا بِالآخِرَۃِ وَمَن یُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللّہِ فَیُقْتَلْ أَو یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا
ترجمہ: اب ضرورت ہے کہ راہ خدا میں وہ لوگ جہاد کریں جو زندگانى دنیا کو آخرت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں اور جو بھى راہ خدا میں جہاد کرے گا وہ قتل ہو جائے یا غالب آجائے دونوں صورتوں میں ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے _
*1_ دنیا پرست اور خودپسند لوگ راہ خدا میں لڑنے کی توانائی و لیاقت نہیں رکھتے_*
و انّ منکم لمن لیبطّئنّ ... فلیقاتل فى سبیل الله الّذین خداوند متعال نے فقط آخرت کو دوست رکھنے والے مسلمانوں سے راہ خدا میں جہاد کرنے کا تقاضا کیا ہے جبکہ جہاد سب مسلمانوں پر واجب ہے_ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا پرست لوگ نہ تو راہ خدا میں جہاد کى لیاقت رکھتے ہیں اور نہ توانائی، ''فلیقاتل''میں کلمہ ''فا'' اس معنى پرواضح طور پر دلالت کر رہا ہے_
-2_ فقط دنیا سے روگردان آخرت طلب لوگ ہى راہ خدا میں جنگ کرنے کى صلاحیت و توانائی رکھتے ہیں_*
فلیقاتل فى سبیل الله الذین یشرون الحیوة الدنیا بالاخرة
*3_ دنیا سے دل نہ لگانا اور آخرت اندیشى ، راہ خدا کے مجاہدین کى خصوصیت ہے_*
فلیقاتل فى سبیل الله الّذین یشرون الحیوة الدنیا بالاخرة
*4_ راہ خدا میں جہاد اور دنیا پرستى کے درمیان تضاد ہے_*
فلیقاتل فى سبیل الله الذین یشرون الحیوة الدنیا بالآخرة
*5_ عام جنگوں کے مقابلے میں اسلامى جہاد کى خصوصیت اس کا راہ خدا میں ہونا ہے_*
فلیقاتل فى سبیل الله ... و من یقاتل فى سبیل الله
*6_ دنیا و آخرت کے بارے میں غلط تحلیل نتیجہ، جہاد سے تخلف کرنا ہے_*
فلیقاتل فى سبیل الله الذین یشرون الحیوة الدنیا بالآخرة
*7_ دنیا کى نسبت اخروى زندگى کى برترى اور اصالت _*
الّذین یشرون الحیوة الدنیا بالآخرة
چونکہ ضرورت کے وقت، اخروى حیات کى خاطر دنیوى زندگى سے صرف نظر کرنا پڑتا ہے ا،س سے اخروى زندگى کى اصالت معلوم ہوتى ہے_
*8_ راہ خدا میں جنگ و جہاد کے نتیجے میں اخروى نعمتیں حاصل ہوتى ہیں_*
فلیقاتل فى سبیل الله الّذین یشرون الحیوة الدینا بالآخرة
*9_ جہاد سے تخلف، آخرت کى تباہى کا باعث بنتا ہے_*
و انّ منکم لمن لیبطئنّ ... فلیقاتل فى سبیل الله الّذین یشرُون الحیوة الدنیا بالآخرة
جملہ ''فلیقاتل فى سبیل الله ...'' کا مفہوم یہ ہے کہ اگر شرائط کے باوجود مسلمان جہاد کو ترک کردیں اور فقط دنیوى زندگى پر اکتفا کرلیں تو وہ آخرت حاصل نہیں کرسکے اور درحقیقت اپنى آخرت کو تباہ کرچکے ہیں_
*10_ راہ خدا کے مجاہدین خواہ قتل ہوجائیں یا فتح مند، عظیم اجر الہى سے بہرہ مند ہوں گے_*
و من یقاتل فى سبیل الله فیقتل او یغلب فسوف نؤتیہ اجراً عظیماً
*11_ فتح مند ہونے والے اور شہید ہوجانے والے مجاہدین کے اجر و ثواب کا مساوى ہونا_*
فیقتل او یغلب فسوف نؤتیہ اجراً عظیماً
*12_ راہ خدا کے مجاہدین ہرگز مغلوب نہیں ہوتے خواہ قتل ہى کیوں نہ ہوجائیں _*
فیقتل او یغلب
ہوسکتا ہے ''یُغلب'' (مغلوب ہونا)کى جگہ ''یُقْتل''کا استعمال مندرجہ بالا مطلب کى طرف اشارہ ہو_
____________
(۷۵) وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیرًا
اور آخر تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم الله کى راہ میں اور ان کمزور مردوں ،عورتوں اور بچوں کے لئے جہاد نہیں کرتے ہو جنھیں کمزور بنا کر رکھا گیا ہے اور جو برابر دعا کرتے ہیںکہ خدا یا ہمیں اس قریہ سے نجات دے دے جس کے باشندے ظالم ہیں او رہمارے لئے کو ئی سرپرست اوراپنى طرف سے مددگار قرار دے دے _
*1_ راہ خدا میں جہاد کا واجب ہونا_*
و ما لکم لاتقاتلون فى سبیل الله
*2_ مستضعفین کى نجات کیلئے جنگ و جدوجہد کرنے کا واجب ہونا_*
و ما لکم لاتقاتلون فى سبیل الله والمستضعفین
آیت کے ذیل کے قرینے سے مستضعفین کیلئے جنگ سے مراد، انہیں ظالموں کے چنگل سے نکالنے کیلئے جنگ کرنا ہے_ مذکورہ بالا مطلب میں ''المستضعفین''کو ''الله ''پر عطف کیا گیا ہے_
*3_ راہ خدا میں اور مستضعفین کى نجات کیلئے جہاد سے تخلف کرنے والے افراد کى خداوند متعال کى طرف سے سرزنش _*
و ما لکم لاتقاتلون فى سبیل الله والمستضعفین
*4_ راہ خدا میں جہاد کے مصادیق میں سے ایک، موحد مستضعفین کى نجات کیلئے جنگ کرنا ہے_*
و مالکم لاتقاتلون فى سبیل الله والمستضعفین
راہ مستضعفین سے مراد ان کى نجات ہے_ بنابرایں ''المستضعفین''، ''سبیل الله ''پر عطف ہے اور یہ عام پر خاص کا عطف ہے_ چونکہ جو کچھ حکم خدا وندمتعال سے انجام پاتا ہے وہ ''سبیل الله ''سے باہر نہیں ہوسکتا_
*5_ ظلم و ستم میں پسے ہوئے عورتیں،مرد اور بچے، مستضعفین کے مصادیق میں سے ہیں_*
والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان الّذین یقولون ربّنا اخرجنا من ھذہ القریة الظالم ا ھلھا
*6_ کفر و شرک کے ماحول سے بچوں کو دور رکھنا اور نجات دلانا، مؤمنین کے فرائض میں سے ہے_*
والولدان ... الظالم اہلہا
*7_ مختلف قوتوں کو اکٹھا کرنے کیلئے قرآن کا انسانى احساسات سے استفادہ کرنا_*
و مالکم لاتقاتلون فى سبیل الله و المستضعفین من الرجال والنساء والولدان
*8_ ظلم و ستم پر مبنى ماحول میں زندگى گذارنے کا ناروا ہونا_*
یقولون ربّنا اخرجنا من ھذہ القریة الظالم اھلھا
جملہ ''الظالم اہلھا''کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ مستضعفین کے قریہ سے نکلنے کى خواہش کى اصلى علت، اس قریہ کے رہنے والوں کا ظالم ہونا ہے نہ یہ کہ وہ ظلم وستم کا نشانہ ہیں اگرچہ مجموعى طور پر آیت سے یہى ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر ظلم ہورہا ہے_
*9_ صدر اسلام کے بعض مسلمانوں کا کفار مکہ کے ظلم و ستم کے تحت تسلط ہونا_*
و ما لکم لاتقاتلون فى سبیل الله و المستضعفین ... یقولون ربّنا اخرجنا من ھذہ القریة الظّالم اہلہا
بہت سے مفسرین کى رائے ہے کہ مذکورہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں ہے جو فتح مکہ سے پہلے وہاں تھے اور جنہیں ہجرت سے روکا جا رہا تھا_
*10_ مکہ کے مظلوم و مستضعف مسلمانوں کا اپنے حاکم کے ظلم و ستم سے نجات پانے کیلئے اپنے پروردگار کے حضور دعا کرنا_*
والمستضعفین ... الّذین یقولون ربّنا اخرجنا من ھذہ القریة الظّالم اہلہا
*11_ ظلم و ستم کے تحت زندگى گذارنے والے خداپرست مستضعفین کے بارے میں اسلامى معاشرے کى بین الاقوامى ذمہ داری_*
و مالکم لاتقاتلون فى سبیل الله والمستضعفین ... الّذین یقولون ربّنا اخرجنا من ھذہ القریة الظّالم اہلہا
*12_ موحّد مستضعفین کى نجات کیلئے ابتدائی جہاد کا جواز _*
ما لکم لاتقاتلون فى سبیل الله والمستضعفین ... الّذین یقولون ربّنا اخرجنا من ھذہ القریة ا لظالم اہلہا
*13_ کمزور لوگوں پر جابرانہ تسلط کى ممانعت_
والمستضعفین ... اخرجنا من ھذہ القریة الظّالم اہلہا
''استضعفہ''یعنى اُسے ضعیف و کمزور جان کر اس پر مسلط ہوگیا_ چونکہ ضعیف کرنے والے ظالم شمار کئے گئے ہیں اس سے اس فعل کى حرمت و ممانعت ظاہر ہوتى ہے_*
*14_ افرادى قوت اور کمان، ظالموں کے خلاف جدوجہد کى دو بنیادى شرائط ہیں_*
اخرجنا من ھذہ القریة الظّالم اہلہا و اجعل لنا من لدنک ولیّاً واجعل لنا من لدنک نصیراً
*15_ صدر اسلام کے مستضعف مسلمانوں کا، مکہ کے کفر پیشہ ظالموں سے نجات پانے کیلئے خداوند متعال کى طرف سے افرادى قوت اور کمانڈر مہیا کرنے کى درخواست کرنا_*
واجعل لنا من لدنک ولیاً واجعل لنا من لدنک نصیراً
*16_ خداوند متعال کى بارگاہ میں دعا، مشکلات سے نجات پانے کا راستہ ہموار کرتى ہے_*
واجعل لنا من لدنک ولیّاً واجعل لنا من لدنک نصیراً
*17_ ربوبیت خداوند متعال کى طرف توجّہ کا آداب دعا میں سے ہونا_*
ربّنا اخرجنا ... واجعل لنا من لدنک ولیاً واجعل لنا من لدنک نصیراً
*18_ مستضعفین مکہ کى نجات کیلئے خداوند متعال کى طرف سے جہاد کا حکم صادر ہونے کے ہمراہ ان کى دعا قبول ہونا_*
و ما لکم لاتقاتلون ... الذین یقولون ربّنا اخرجنا
*19_ اسلام کا آزادى بخش لشکر، موحّد مستضعفین کى نجات کیلئے نصرت الہى ہے_*
وما لکم لاتقاتلون ...واجعل لنا من لدنک نصیراً
*20_ الہى رہبروں کى ولایت قبول کرنے کے نتیجے میں خداوند متعال کى نصرت و امداد کا آنا_*
و اجعل لنا من لدنک و لیاً و اجعل لنا من لدنک نصیراً
تعیین ''ولیّ''کا تعیین ''نصیر''پر مقدم ہونا مذکورہ بالا مطلبکى طرف اشارہ ہوسکتاہے_
__________________
(۷۶) الَّذِینَ آمَنُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّہِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِیَاء الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا
ایمان والے ہمیشہ الله کى راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ ہمیشہ طاغوت کى راہ میں لڑتے ہیں لہذا تم شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو بیشک شیطان کا مکر بہت کمزور ہوتا ہے _
*1_ حقیقى مؤمنین کى واضح خصوصیات میں سے ایک راہ خدا میں لڑنا ہے_*
الّذین امنوا یقاتلون فى سبیل الله
*2_ راہ خدا میں جنگ کرنا، ایمان کى نشانیوں میں سے ہے_*
الذین امنوا یقاتلون فى سبیل الله
*3_ کفار کا طاغوت کى راہ میں لڑنا اور جنگ کرنا_*
والذین کفروا یقاتلون فى سبیل الطاغوت
*4_ طاغوت کے ہم رکاب جنگ کرنا، کفر کى علامت ہے_*
والذین کفروا یقاتلون فى سبیل الطاغوت
*5_ طاغوت کو تقویت پہنچانا، کفار کى خصوصیات میں سے ہے_*
والّذین کفروا یقاتلون فى سبیل الطاغوت
*6_ شیطان کے حامیوں (کفار و طاغوت) کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہے_*
والّذین کفروا یقاتلون فى سبیل الطاغوت فقاتلوا اولیاء الشّیطان
*7_ طاغوت اور اس کیلئے راہ ہموار کرنے والے، شیطان کے دوست اور حامى ہیں_*
والّذین کفروا یقاتلون فى سبیل الطّاغوت فقاتلوا اولیاء الشیطان
''فقاتلوا''میں فائے تفریع کے قرینے سے شیطان کے اولیا ء سے مراد کفار اور طاغوت ہیں_ یاد رہے کہ مذکورہ بالا مطلب میں شیطان کو غیرطاغوت کے طور پر لیا گیا ہے_
*8_ خدا کى راہ اور طاغوت و شیطان کى راہ میں تضاد ہے_*
الّذین امنوا یقاتلون فى سبیل الله والّذین کفروا یقاتلون فى سبیل الطّاغوت فقاتلوا اولیاء الشیطان
*9_ طاغوت، شیطان ہیں اور کفار ان کے مددگار و حامى ہیں_*
والذین کفروا یقاتلون فى سبیل الطّاغوت فقاتلوا اولیاء الشیطان
یہ اس احتمال کى بنا پر ہے کہ شیطان سے مراد وہى طاغوت ہو_اس صورت میں فائے تفریع کے قرینے سے، اولیائے شیطان سے مراد کفار ہوںگے_
*10_ شیطان کے دوستوں (کفار و طاغوت) کے ساتھ جنگ کرنا، راہ خدا میں لڑنے کا واضح مصداق ہے_*
الّذین امنوا یقاتلون فى سبیل الله ... فقاتلوا اولیاء الشیطان
*11_ شیاطین اور طاغوت کے حیلوں و منصوبوں کى بنیاد کا کمزور و سست ہونا_*
والذین کفروا یقاتلون فى سبیل الطاغوت ... انّ کید الشیطان کان ضعیفاً
*12_ مؤمنین کے حوصلے بلند کرنے کیلئے دشمن کى کمزوریوں کو بیان کرنا، قرآنى روش ہے_*
الّذین امنوا یقاتلون فى سبیل الله ... فقاتلوا اولیاء الشیطان انّ کید الشیطان کان ضعیفاً
جہاد کے حکم کے بعد شیطانى حیلوں اور تدبیروں کے کمزور ہونے کى یاددلانے کا مقصد کفار کے ساتھ لڑنے میں مسلمانوں کے حوصلوں کو بلند کرنا اور ان کى پریشانى کو ختم کرنا ہے_
*13_ شیاطین کا ہمیشہ مؤمنین کے خلاف مکر و فریب اور سازش کرنے میں مصروف رہنا_*
ان کید الشیطان کان ضعیفاً
*14_ فتح اور شکست میں جنگى طریقہ کار اور منصوبہ بندى کا بنیادى اور اہم کردار _*
انّ کید الشیطان کان ضعیفاً
یہ جو خداوند متعال نے کفار کے مقابلے میں مؤمنین کو حرکت میں لانے کیلئے کفار کے منصوبوں کے کمزور و ناتوان ہونے کى یاددہانى کرائی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگى طریقہ کار اور منصوبہ بندی، فتح و کامرانى میں اہم کردار ادا کرتى ہے_
*15_ طاغوت کے محاذ پر جنگ و پیکار کرنے والے کفار کا ضعیف و ناتوان ہونا_*
والذین کفروا یقاتلون فى سبیل الطاغوت ... انّ کید الشیطان کان ضعیفاً
_______________

کتے

کتے صرف چار پیروں والے نہیں ہوتے، دو پیروں والے کتوں کی نسل بھی دنیا میں پائی جاتی ہے، ان کتوں کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ دانت سے نہیں کاٹتے بلکہ اپنی اس سڑی بسی زبان سے کاٹتے ہیں جو دوسروں کے تلوے چاٹتے چاٹتے موٹی ہوگئی ہے۔۔۔ان کتوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر وقتا فوقتا انہیں ان کے کتے ہونے کا احساس نہ دلایا جائے تو وہ پاگل ہوجاتے ہیں اور ہمیں ہر لمحہ ان کے کاٹے کا ڈر لگا رہتا ہے۔۔۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ کتے اپنے کتے پن کے باوجود ہاتھوں میں قلم پکڑنا جانتے ہیں اور منہ سے بھونکنے کی بجائے اسی قلم سے بھونکتے ہیں۔۔۔ کچھ کتے بھونکتے بھونکتے اتنے مشہور ہوجاتے ہیں کہ کتا یونین انہیں کتوں کا سردار بنادیتی ہے ۔۔۔اور پھر یہ کتے جس طرح سے چاہتے ہیں جیسے چاہتے ہیں لوگوں پر بھونکتے اور انہیں کاٹتے رہتے ہیں۔۔۔میرا بھی کئی مرتبہ ایسے کتوں سے سابقہ پڑ چکا ہے لیکن میں نے اپنے حواس بجا رکھے اور ان کتوں کو انہیں کی زبان میں جواب دے کر انہیں خاموش کیا۔۔۔
ان کی ایک بری عادت یہ بھی ہے کہ آپ کسی طریقے سے انہیں بھونکنے سے روک بھی دیں تو اندر ہی اندر غراتے رہتے ہیں۔۔۔گویا کہہ رہے ہوں آج تو بچ گیا آئندہ ہوشیار رہنا۔
ویسے مجھے ان کتوں سے کبھی کچھ لینا دینا نہیں رہا اور نہ ہی میں ان کتوں پر اتھارٹی ہوں۔۔۔ہاں اتنا ہے کہ جب سنسان سڑک پر اکیلے جارہا ہوتا ہوں تو ہر لمحہ اپنی تشریف خطرے میں نظر آتی ہے ۔۔۔
بھوت پریت کا میں کبھی قائل نہیں رہا اور نہ آئندہ قائل ہونے کی امید ہے لیکن کتوں کے وجود سے مجھے انکار نہیں ،آنکھ اور تشریف پاس میں ہے تو ہر جگہ کتے ہی کتے ہیں۔۔۔
جس طرح افطاری میں پکوڑے اور کلینگڑ ضروری ہیں اسی طرح دنیا میں ان کتوں کا وجود بھی ضروری ہے ۔۔۔
ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔۔۔دو پیروں والے کتوں کے وجود کا مقصد شاید یہ ہو کہ دوپیر والے انسان اپنی قدر پہچان سکیں اور ان کتوں کو دیکھ کر عبرت لیں تاکہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ان سے "کتا پن" سرزد نہ ہوسکے۔۔۔!

سحری کی دعا(لفظ "غد" کا مسئلہ)

سوشل میڈیا پر آج کل سحری کی دعا میں مذکور لفظ "غد" کو لے کر خوب اعتراض کیا جارہا ہے اسی کو سامنے رکھ کر یہ تحریر لکھی گئی ہے!

روزے کی نیت کے سلسلے میں غیر مقلدین ہم پر دو اعتراض کرتے ہیں :
۱)ہم جن الفاظ سے نیت کرتے ہیں وہ احادیث سے ثابت نہیں ،بلکہ بدعت ہے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ ہماری کسی کتاب میں بھی یہ لکھا ہوا دکھا دیں کہ نیت کے کچھ خاص الفاظ حدیث سے ثابت ہیں ، یا کسی خاص دعا کو احناف لازم قرار دیتے ہیں؛ بلکہ جہاں بھی دیکھیں گے یہی ملے گا کہ روزہ کی نیت کا دل میں کرلینا کافی ہے زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ، ہاں زبان سے نیت کرلینا بہتر ہے، اور اسی وجہ سے(یعنی زبان سے نیت کرنے کے بہتر ہونے کی وجہ سے) وہ خاص دعا مشہور ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے ، لیکن معترضین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں حنفیہ کا کچھ قصور نہیں بلکہ قصور تو ان کمپنیوں، ہوٹلوں، آفسوں اوردکانوں کا ہے جو رمضان کارڈ پر اس دعا کو لکھ کر عام کر رہے ہیں(ان میں خود غیر مقلدین بھی شامل ہیں)اور ناخواندہ عوام اسے ضروری سمجھ کر اس پر عمل کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ دعا پڑھ کر روزہ صحیح ہو جائے گا؟ جواب:ہاں؛ کیونکہ روزے کیلئے نیت کا ہونا ضروری ہے اور اس دعا کی وجہ سے نیت پا لی گئی؛ لیکن نیت کرنے والے کو یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ یہ الفاظ حدیث سے ثابت نہیں ؛لیکن ہم یہ دعا اس لیے پڑھ لیتے ہیں ہمیں عربی آتی نہیں ،اور اردو میں یہ کہنے سے کہ’’میں اللہ تعالیٰ کےلئے رمضان کاروزہ رکھتا ہوں‘‘ انہیں الفاظ کو عربی میں ’’نویت ان اصوم غداً للّٰہ تعالی من شہر رمضان‘‘ کہہ لینے کو بہتر سمجھتے ہیں۔
جب ہم نیت کی دعا کو لازم وضروری قرار نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی اردو میں بھی نیت کرلے تو اس کا روزہ ہو جائے گا تو پھر بدعت کہاں!!؟
بدعت تو اسے کہتے ہیں کہ کسی چیز کو جو دین سے نہ ہو اسے دین سمجھ کر لازم کر لیا جائے۔
۲)دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ ہمارا روزہ صحیح نہیں ہوتا ؛کیونکہ ہم جس دن کا روزہ رکھتے ہیں اس سے اگلے دن کے روزے کی نیت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ نیت کی دعا میں لفظ ’’غد‘‘ ہے جس کا معنی( ان کے نزدیک) صرف ’’آئندہ کل‘‘ہے، اور آئندہ کل کی نیت کرنے سے آج کا روزہ کیسے ادا ہوگا؟
افسوس ان کی عقلوں پر اور عربیت سے ان کی نا واقفیت پر!انہیں’’ غدا‘‘ کے محل استعمال اور اس کے معنی کا ہی پتہ نہیں اور دعوی خود سے قرآن و حدیث سمجھنے کا!!
یہ بیچارے سمجھتے ہیں کہ ایک لفظ کا ایک ہی معنی ہوتا ہے ، اور وہ بھی وہ جو انہیں باپ دادا سے وراثت میں ملا ہوتا ہے ،لغت تو یہ دیکھ نہیں سکتے؛ کیونکہ اس کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے اگر تھوڑا بہت جان لیا تو اردو -عربی اور عربی-اردو لغت دیکھ لیا ؛لیکن اس میں وہ سارے معانی کہاں ملنے والے جو عربی کی بڑی بڑی کتب لغات میں ملتے ہیں اور عربوں کے یہاں معتبر مانے جاتے ہیں، کہاں عربی لغت کی ۴۰،۴۵ جلدیں اورکہاں اردو کی مصباح اللغات، القاموس الوحید وغیرہ جو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو جلدوں میں ہیں ،اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ جو باتیں ۲۵،۵۰ جلدوں میں ہیں وہ۱،۲ جلدوں میں کیسے آسکتی ہیں؟ اب اگر کوئی مصباح اللغات دیکھ کر یا باپ دادا سے وراثت میں ملے ہوئے معنی کو لیکر اعتراض کرتا ہے تو اسے کیا کہیں گے ؟یقیناً باؤلا کہیں گے۔
دیکھیے معترضین نے جس لفظ (غد) کو لے کر اعتراض کیا ہے اس کے وہی ایک معنی نہیں ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں یعنی(کل)؛بلکہ اس کے اور بھی معنی ہیں جن کا استعمال کلام عرب بلکہ خود قرآن میں بھی ہوا ہے۔
لغت کی ایک بڑی کتاب ’’النہایہ‘‘ میں حضرت عبدالمطلب کا ایک شعر ذکر کیا گیا ہے:
لایغلبن صلیبہم-ومحالہم غدواًمحالک
اس شعر کو ذکر کرنے کے بعد صاحب نہایہ کہتے ہیں کہ عبدالمطلب نے ’’غد‘‘ سے وہ کل مراد نہیں لیا ہے جو آج کے بعد آنے والا ہے ؛ بلکہ قریبی زمانے کو مراد لیا ہے(اور وہ قریبی زمانہ آج بھی ہو سکتا ہے اور کل کے بعد پرسوں، نرسوں بھی ہو سکتا ہے)۔
اسی طرح قرآن میں ہے:
’’ولا تقولن لشیئی إنی فاعلٌ ذلک غدا إلا أن  یشاء اللہ ‘‘
(ترجمہ:اور (اے پیغمبر!)کسی بھی کام کے بارے میں کبھی یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کرلوں گا، ہاں (یہ کہو) کہ اللہ چاہے گا تو(کرلوں گا)۔
اس میں بھی ’’غد‘‘ سے بعینہ کل مراد نہیں ہے ورنہ مطلب میں خلل آتا ہے ؛کیونکہ مقصود صرف کل کے کام کے لیے ان شاءاللہ کہنا نہیں ہے؛ بلکہ اگر آج ہی کوئی کام کرنا ہے تو بھی ان شاءاللہ کہنا ہے اور پرسوں، نرسوں کوئی کام کرنا ہے تو بھی ان شاءاللہ ضروری ہے، اگر وہاں اردو لغات والا معنی لیا گیا تو مطلب ہوگا کہ اگر کل کے دن کوئی کام کرنے کا ارادہ ہو تو ان شاءاللہ کہنا ضروری ہوگا دوسرے دن میں نہیں ۔
اسی طرح سورہ حشر میں ہے
’’ولتنظر نفس ما قدمت لغد‘‘
(ہرشخص یہ دیکھے کہ اس نے کل (قیامت) کیلئے کیا آگے بھیجا ہے)۔
اس میں بھی "غد" سے مراد آئندہ کل نہیں ہے بلکہ قیامت کا دن مراد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اب غیر مقلدین کیا کہیں گے!!!؟؟؟؟
بھائیوں غیر مقلدین! تحقیق کے لیے دیکھیے ’’اللسان‘‘’’تاج العروس‘‘ ’’المصباح‘‘عربی والی اور’’ مجمع البحار‘‘،اگر خود سے نہ پڑھ سکیں تو کسی قاسمی سے پڑھوالیں۔
یہ تو تھی ان کی عربیت سے ناواقفیت کی دلیل، ساتھ ساتھ یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ان کا تفسیر سے بھی کوئی تعلق نہیں ورنہ کیا بات ہے کہ انہیں قرآن میں آئے لفظ’’ غد‘‘ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔ایک اور چیز ہے جس سے یہ ناواقف ہیں اور جسے عربی زبان کی کنجی کہا جاتا ہے، وہ ہے نحو وصرف یعنی عربی کے گرامر، اس میں ایک چیز ہے معرفہ نکرہ ، اس کے استعمال سے بھی معنی بدل جاتے ہیں ؛چنانچہ اسی لفظ ’’غد‘‘ کو لے لیجیے اگر اسے معرفہ یعنی الف لام کے ساتھ (الغد) استعمال کرتے ہیں تو عموماً اس کا معنی ’’آئندہ کل‘‘ ہوتا ہے، کبھی کبھی قرینہ کی وجہ سےدوسرے معنیٰ مراد لے لیئے جاتے ہیں جیسے اہل عرب کہتے ہیں ’’سیکون لک الغد الافضل‘‘ اس میں’’ الغد الافضل‘‘ سے مراد شاندار مستقبل ہے اور اس کا قرینہ لام اختصاص ہے۔ اور اگر نکرہ(غد) استعمال کرتے ہیں تو وہی معنی مراد ہوں گے جو عبد المطلب کے شعر اور قرآن میں ہیں، اور یہی استعمال (نکرہ والا) نیت کی دعا میں بھی ہے لہٰذا وہاں بھی وہی معنی مراد ہوگا یعنی صبح صادق کے فورا بعد والا زمانہ۔

غیر مقلدین کو تو ہماری فقہ سے خدا واسطے کا بیر ہے اس لیے ہم ان کے لیے تو نہیں ۔۔۔اپنے خدا ترس بندوں کے لیے یہ لکھ رہیں ہیں کہ ہماری فقہ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ روزہ دار رمضان کے مہینے میں چاہے جس روزے کی نیت کرے:نذر کی کرے، قضاء کی کرے، یاجس دن کی کرے :پیر کے دن منگل کی کرے ،بدھ کی کرے روزہ اسی دن کا ادا ہوگا جس دن میں یہ نیت کررہا ہے۔

بحثیتِ فردِ مسلم ہماری ذمہ داری

ہمارا سب سے بڑا المیہ۔۔۔ہماری بزدلی ہے۔۔۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ ہم یا تو خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔۔۔ہمارے آس پاس کیا ہورہا ہے اس کی ہمیں خبر نہیں ہے یا ہمارے دل اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ ہمارے آس پاس جو کچھ بھی ہورہا ہے اس پر ہم تڑپنا نہیں جانتے ہیں۔۔۔یا سب کچھ ہوتا دیکھ کر بھی خاموش اس لیے ہیں کہ مصیبت ہم پر تھوڑے نازل ہوئی ہے ۔۔۔جب ہم پر آئے گی تو دیکھ لیں گے!!!
اگر ایسا ہے -خدا نہ کرے- تو ہم بے حس ہوگئے ہیں ہمارے لیے زمین کے اوپر کی جگہ سے اچھی جگہ زمین کے نیچے ہے۔۔۔
دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت نے ہمیں بزدل بنادیا ہے۔۔۔آج مسلمانوں کی جتنی تعداد ہے ۔۔۔جتنے اسلامی ممالک ہیں پہلے اتنے نہ تھے مگر پھر بھی مسلمانوں کا ایک رعب و دبدبہ تھا ۔۔۔ دشمنوں کے پاس سامانِ جنگ کی کثرت کے باوجود ان کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ آنکھ اٹھاکر بھی مسلم ممالک کی طرف دیکھ لیں۔۔۔آج مسلمانوں کی اتنی کثرت کے باوجود ہر طرف سے ان پر مظالم کیوں ڈھائے جارہے ہیں؟ ۔۔۔۔جواب ہے ۔۔۔اور یہ کسی دانشور ، مفتی یا مفکر کا نہیں ہے ۔۔۔بلکہ ایسی شخصیت کا ہے جس کے جواب کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا۔۔۔کیا جواب ہے اور اسے کس نے دیا ہے دیکھیے:
: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "  يُوشِكُ أَنْ  تَدَاعَى عَلَيْكُمُ الأُمَمُ مِنْ كُلِّ أُفُقٍ كَمَا تَتَدَاعَى الأَكَلَةُ عَلَى قَصْعَتِهَا ، قُلْنَا : مِنْ قِلَّةٍ بِنَا يَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ : لا ، أَنْتُم يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ ، وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ ، يَنْزَعُ اللَّهُ الْمَهَابَةَ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّكُمْ وَيَجْعَلُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ ، قِيلَ : وَمَا الْوَهَنُ ؟ قَالَ : حُبُّ الْحَيَاةِ وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ "
آج مسلمانوں کی جو صورتِ حال ہے اور کثرت کے باوجود ہر طرف مارے کاٹے جارہے ہیں اس کی وجہ جب صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے دریافت کی تو آپ نے فرمایا تھا کہ وہ کثرت کے باوجود ہر طرف مارے کاٹے اس لیے جائیں گے کہ انہیں دنیا سے محبت ہوجائے گی اور موت کو ناپسند کرنے لگیں گے۔۔۔
اگر ہمیں دنیا میں عزت کے ساتھ بے خوف ہوکر جینا ہے تو دشمنوں کے دلوں میں اپنا خوف بِٹھانا پڑے گا، لیکن اس کے لیے مار کاٹ ضروری نہیں بس اس کا احساس دلادینا کافی ہوگا کہ ہم مقابلہ کرنے اور دشمنوں کو نقصان پہنچانے کی طاقت اور ہمت رکھتے ہیں ۔۔۔ضرورت پڑی تو استعمال بھی کرسکتے ہیں۔۔۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اسی کا احترام کرتی ہے جس سے نفع پہنچنے کی امید یا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔۔۔جس سے نہ کوئی نفع پہنچتا ہو نہ نقصان اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔۔۔چیونٹی ہی کو لے لیجیے۔۔۔کتنا چھوٹا جانور ہے لیکن اگر بستر میں کہیں نظر آکر چھپ جائے تو نیند حرام کردیتی ہے۔۔۔کیوں؟ ۔۔۔اس لیے کہ وہ کاٹتی ہے ۔۔۔۔بچھو ڈنک مارتا ہے سانپ ڈستا ہے ۔۔۔اس لیے ان سب سے ڈرا جاتا ہے ۔۔۔۔یہ ہے انسانی فطرت!
اب ہم خود کو دیکھیں ہم صرف نفع اٹھانے کی چیز رہ گئے ہیں ۔۔۔"یُوز اینڈ تھرو" کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں بس ۔۔۔ہماری کوئی قیمت نہیں ہے اور نہ ہی ہماری کوئی آواز ہے ۔۔۔ہماری آواز تو اتنی پست ہوگئ ہے کہ اس کی باز گشت بھی سنائی نہیں دیتی۔۔۔موت سے فرار نے ہمیں موت سے پہلے ہزاروں دفعہ موت دیا ہے۔۔۔
دنیا سے محبت اور موت کو ناپسند کرنا ضعفِ ایمان کی دلیل ہے ۔۔۔اور ضعفِ ایمان سے روح میں کمزوری آتی ہے اور روح کمزور ہوجائے تو انسانی جسم بھی بے کار ہوجاتا ہے جسے ہر طاقت والا ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہتا ہے۔۔۔
جاگو جاگو۔۔۔اب بھی وقت ہے مسلمانو! کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر عمل کرو، دنیا کی محبت دل سے نکال دو، آخرت کی فکر کرو، عملِ صالح سے اپنے ایمان اور ایمانی قوت کو مضبوط کرو، اور دشمنوں کے دلوں میں اپنا رعب بیٹھانے کے لیے موجودہ دور میں کار آمد دفاعی طاقت بھی حاصل کرو، یہ فرض ہے" وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ "
ترجمہ:اور(مسلمانو! )جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے(موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں ابھی تم نہیں جانتے،(مگر) اللہ انہیں جانتا ہے۔
اس آیت کی تشریح میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک ابدی حکم ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی دفاعی طاقت جمع کرنے کا اہتمام کرے۔قرآن کریم نے "طاقت" کا عام لفظ استعمال کرکے بتادیا ہے کہ جنگ کی تیاری کسی ایک قسم کے ہتھیار پر موقوف نہیں ؛بلکہ جس وقت جس قسم کی دفاعی قوت کار آمد ہو اس وقت اسی طاقت کا حصول مسلمانوں کا فریضہ ہے۔
ہمارے پاس ایمان کا جو قیمتی پھول ہے اسے بچانے کی تدبیر کرنی ہوگی اس پھول کی حفاظت کے لیے اللہ نے "واعدوا لھم ماستطعتم" کا جو کانٹا ہمیں دیا تھا اور جو "خوئے حریری" میں بدل گیا ہے اسے پھر سے کانٹے کی صفت میں لانا ہوگا تبھی خار و گل میں فرق ہوگا ورنہ صرف ہم نام کے مسلمان رہ جائیں گے اور یوں ہی مارے کاٹے جاتے رہیں گے۔۔۔ایسے وقت میں صرف دعا پر بھروسہ کر کے ایک کونے میں بیٹھ جانا اور یہ سمجھنا کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا غلط ہے ۔۔۔لیکن دعا کو بالکل فراموش کردینا بھی درست نہیں ۔۔۔بین بین اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔۔۔۔دعا کے ساتھ ساتھ مصائب کا مقابلہ کرنے کی کارگر تدبیریں بھی اختیار کرنی چاہیے۔۔۔

تمیزِ خار و گل سے آشکارا ☆ نسیمِ صبح کی روشن کی ضمیری
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے ☆ اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری

اور امت کے قائدین کی قیادت کا جو مسئلہ ہے اس کے ذمے دار قائدین نہیں ہیں؛ بلکہ قصور وار ہم ہی ہیں ۔۔۔اگر امت کا ہر ہر فرد اس بیماری سے اپنے آپ کو بچالے جس کا حدیث میں تذکرہ ہے تو اللہ تعالی ان شاء اللہ ہمیں بہتر قائد بھی عطا فرمادے گا۔۔۔ورنہ اِس کمزور ایمان کے ساتھ اور دنیا کی محبت اور موت سے گھبرانے والے دل کے ساتھ ہماری قیادت کو اگر "صلاح الدین ایوبی" بھی آجائیں تو وہ بھی صرف جلسے کراتے رہ جائیں گے !
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى * قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا * قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى۔
ترجمہ:اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا اسے(دنیا میں) بڑی تنگ زندگی ملے گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے، وہ کہے گا:"یارب! تونے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا، حالانکہ میں تو آنکھوں والا تھا؟ "اللہ کہے گا:"اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں مگر تونے بھلادیا اور آج اسی طرح تجھے بھلا دیا جائے گا۔
ہم قرآن کی اس آیت میں غور کریں کہیں اس لیے تو ہماری یہ حالت نہیں؟؟؟؟